ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2014 |
اكستان |
|
گئے تھے کہ ہمیں کچھ پیسے چاہییں ہمیں کچھ اَ ناج چاہیے اُس نے کہاکہ اَناج تو میں دے دُوں گا لیکن تم گروی رکھو میرے پاس ،کیا گروی رکھیں ؟ کہنے لگا عورتیں گروی رکھو اپنی ! یہ اِنتہادرجے کی بے غیرتی کی بات ہے کہنے والے کی بھی اور جس آدمی سے یہ بات کہی جائے اُس کی اِنتہائی درجہ کی توہین ہے تذلیل ہے تحقیر ہے جو کچھ لفظ بول لیں آپ اِنتہا درجے کا کہ عورتیں گروی رکھ دیں آپ میرے پاس، یہ کوئی گائے بھینس ہے کہ جسے گروی رکھ لیں،یہ اُس کا ذہن تھااپنا ۔اِس کے بعد اُنہوں نے کہا کہ یہ تو نہیں ہو سکتا اور اُس کی تعریف کی کہ آپ تو بہت خوبصورت ہیں اور یوں ہیں اور یوں ہیں حالانکہ اُس کے رضاعی بھائی ہیں اُس سے بات ہو رہی ہے گویا رحم اور شفقت اور برا بری تو بالکل ذہن سے مٹ ہی گئی ،ترس کھانا تو کسی پہ ہے ہی نہیں وہ چاہے بھائی ہی ہو،اُنہوں نے کہا کہ یہ تو نہیں ہو سکتا تو اُس نے کہا کہ اچھا تو اپنے بچوں کو گروی رکھ دو میرے پاس ! تو عورتیں نہیں ہیں چلو بچے توہو سکتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ بھی مشکل ہے جب بڑے ہوں گے بچے تو لوگ طعنہ دیا کریں گے کہ توتو وہ ہے جسے تیرے باپ نے گروی رکھ دیا تھا تو یہ تو بڑے طعنہ کی بات ہے عار ہے اَب اُنہوں نے خود ہی تجویذ پیش کی کہ ایسے ہے کہ ہم ہتھیار رکھ سکتے ہیں تمہارے پاس گروی، ہتھیار رکھ لیں یہ ہو سکتا ہے وہ اُس نے مان لی بڑی مہربانی کی۔ میرے کہنے کامقصد یہ ہے کہ اگر اُس سے پوچھا جائے اور اُس کی طبیعت اور مزاج جو اُس کا تھاوہ دیکھا جائے تو وہ تو بد ترین تھا نا، اُس نے اپنی طبیعت سے جو دو باتیں کہی ہیں دونوں کی دونوں بڑی بد ترین تھیں بڑی توہین آمیز ،بڑی تذلیل والی باتیں یہ اُس کا اپنا جو تھا ظرف یااپنی سوچ جو تھی وہ یہ تھی ................مگر اِسلام نے سود بالکل ختم کر دیا ۔ سو دخوروں کی بے وزن دلیل اور اُس کاجواب : وہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں آیا ہے کہ (لاَ تَأْ کُلُوالرِّبَوا اَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً) سود جو ہے وہ ڈبل دَر ڈبل نہ کھاؤ اور اِس کا مطلب یہ ہے کہ ڈبل سود کھالو ،بس ڈبل دَر ڈبل ،سود دَر سود نہ ہو