ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2014 |
اكستان |
|
باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اِسلام کی موجود گی میں مختلف مذاہب اور فرقے کے لوگ پُر اَمن زندگی نہیں گزار سکتے۔ اِس کے ماننے والے عدم ِ برداشت اور علیحد گی و نفرت کے جذبے کے ساتھ رہتے ہیں۔ رہی سہی کسر اِس کے جہاد کے تصور و تعلیم نے پوری کردی ہے۔ اِس پرو پیگنڈا سے وہ لوگ بھی متاثر ہوجاتے ہیں جو بالکل خالی الذہن ہوتے ہیں۔ ٹوپی، داڑھی والے آدمی کو ایک خاص نظر سے دیکھا جاتا ہے، بچے تک اِشارہ کر رہے ہیں کہ اِس کا اُس خاص گروہ سے تعلق ہے جو دہشت گردی کی کار روائیوں میں لگا ہوا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں اِسلام کے تصورِ اَمن اور دہشت گردی کی مذمت پر مبنی تعلیمات کو سامنے لانے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اہلِ علم کو یہ بارہا بتانا ہوگا کہ اِسلامی شریعت میں ایک بے قصور اِنسان کا قتل تمام اِنسانوں کے قتل کے ہم معنٰی ہے، اللہ رب العزت زمین پر فساد کو پسند نہیں کرتا ہے، فسادی کبھی جہادی نہیں ہوسکتے ہیں۔ اِس کو دارُالعلوم دیوبند اور دیگر تعلیمی و ثقافتی اِداروں اور علمائے کرام کی بڑی تعداد نے موقع بہ موقع ظاہر بھی کیا ہے لیکن اپنی باتوں کو تسلسل کے ساتھ کہنے کی ضرورت ہے۔ (٣) اَقلیتوں کے حقوق کی پاسداری و رعایت : یہ آپ سے مخفی نہیں ہے کہ مخالفین اپنے پروپیگنڈے کو تقویت دینے کے لیے اَقلیتوں کو درپیش مسائل و واقعات کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ مسلم اَکثریت والے ممالک میں غیر مسلم اَقلیتوں کا جان و مال محفوظ نہیں ہے۔ اِس تشہیری مہم کا صحیح توڑ اور مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر ملک کی اَقلیتوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ مسائل اور مشکلات ہوتی ہیں اور اکثریت جو بذات ِخود طاقت ہوتی ہے، کی طرف سے نااِنصافی وزیادتی ہوتی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں اِنصاف اور اِنسانی حقوق اور کمزوروں کی مدد کے سلسلے میں عمومی رُجحان کیا ہے ؟ گرچہ علماء کا طبقہ براہ ِراست اِقتدار و حکومت میں عمومًا دخیل نہیں ہے، تاہم وہ اَقلیتوں اور دیگر اُمور سے متعلق اِسلامی تعلیمات کو پیش کرنے کی پوزیشن میں یقینًا ہے۔