ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2014 |
اكستان |
کے لیے اِتحاد جیسے اُمور پر اَگر غور کیا جائے تو آج بھی اُن کی بڑی معنویت و ضرورت ثابت ہوتی ہے۔ ترک ِموالات اور جامعہ اِسلامیہ کے قیام کے سلسلے میں حضرت شیخ الہند نے کلیدی و صدارتی خطاب کیا تھا۔ اِس میں ہمارے لیے بڑی رہنمائی ہے، اِس سے جہاں قومی یکجہتی، مشترک مسائل کے لیے متحدہ جدو جہد کے لیے راہنمائی ملتی ہے، وہیں وحدت ِاُمت اور قرآن کی طرف رُجوع کی ضرورت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ملک کے موجودہ حالات میں فرقہ پرستی، ہندو مسلم منافرت اور فرقہ وارانہ فسادات کے جو واقعات ہورہے ہیں، اُن پر حضرت شیخ الہند کے طریقہ کار اور اَفکار و اعمال کو نمونہ بنا کر بڑی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ہمدرد انِ ملک وملت ! حضرت شیخ الہند کے حوالے سے منعقد اِس کانفرنس کے جو عنوانات طے کیے گئے ہیں، اُن سے حضرت شیخ لہند کی تحریک کے مقاصد اور طریقۂ کار کا مختلف جہتوں سے گہراتعلق ہے۔ میں چند اُمور کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتاہوں۔ (١) سماج میں علماء کا کردار : آج اِس بات کی شدید ضرورت ہے کہ علماء آگے بڑھ کر اپنے حصے کا کردار اَدا کریں تاکہ ملک و ملت کی صحیح راہنمائی ہو سکے۔ ایک متحرک عالم ِ دین کے لیے عوام تک رسائی دُوسروں کے مقابلے میںزیادہ آسان ہے وہ مختلف حیثیتوں سے عوام کے رابطے میں رہتے ہیں۔ سماج میں عوام کو دَر پیش مسائل میں مثبت رہنمائی وقت کی بڑی ضرورت ہے۔ (٢) دہشت گردی کا مسئلہ اور اِسلام کی بہتر شبیہ پیش کرنے کی ضرورت : اِن کی ایک بڑی اہم ذمہ داری اِسلام کی بہتر و مثبت شبیہ کو پیش کرنا بھی ہے۔ دہشت گردی مٹانے کے نام پر خصوصًا ١١/٩ کے بعد سے اِسلام کی منفی، دہشت گردانہ اور جار حانہ تصویر پیش کر کے یہ