ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2014 |
اكستان |
|
اِن تمام حالات میں جو اُسے تکلیف پہنچ رہی ہے وہ تکلیف باعث ِ اَجر ہورہی ہے اُس کو اَجر مل رہا ہے بشرطیکہ اُس سے اُس کا بدل اور نفع نہ چاہے( نرمی اور صبر سے کام لے)۔ اگر وہاں گیا ہے پیسے لینے قرض لینے پھر وہ مل گیا ہے تو اَب اُس سے یہ چاہتا ہے کہ مجھے ذرا تکلف سے بٹھائے پہلے بوتل پلائے پھر ناشتہ کرائے یا کھانا کھلائے پھر چائے پلائے کچھ اِس طرح کی خواہشات ہیں اُس کی یا وہاں گیا ہے تو اُس سے کہتا ہے کہ بھئی دو چار دِن کا میراکام ہے وہ آکر کر جاؤتم ،مثلاً مزدور ہے راج ہے یا معمار ہے یا دَستکار ہے کوئی ،یہ کیا ہے یہ سب سود ہے۔ قرض دینے کے بعد اِمام ِ اَعظم کی اِحتیاط : بلکہ اِمام ِ اَعظم رحمة اللہ علیہ کاتو یہ عمل ہے کہ اُن کاقرض تھا کسی کے پاس وہاں تشریف لے گئے قرض وصول کرنے کے لیے تو گرمی تھی دھوپ تھی تو اُس کے مکان کے سائے میں نہیں کھڑے ہوئے ہٹ کر کھڑے ہو ئے حالانکہ وہ اُس نفع میں داخل ہی نہیں ہے ،نفع جو منع ہے وہ تو وہ ہے جو اُس آدمی سے لیا جائے یااُس روپیہ کی وجہ سے لیا جائے یہ وہ نفع ہی نہیں ہے جو روپے کی وجہ سے لیا جائے یہ تو جو بھی جائے گا وہاں یہی ہوگا تواِس کامطلب یہ ہے کہ وہ اِحتیاط کرتے تھے اِتنی زیادہ کہ پانی بھی نہیں پیتے ہوں گے جب تک وہ مقروض ہے اِس خدشہ سے کہ کہیں یہ ''ربوا'' میں نہ داخل ہوجائے سود میں نہ داخل ہوجائے تواِسلام نے تو بالکل جڑ کاٹ دی۔ نبی علیہ السلام کے ہاتھوں فرسودہ نظام کا خاتمہ اور جدید مالیاتی نظام کی بنیاد : تو ترقی یافتہ چیز جو ہے وہ یہ ہے کہ سود نہ ہو او ر سود کا ہونا یہ تو پرانی بات ہے یہودیوں کی اِیجاد ہے یہ، جو اَب تک یورپ اور دُوسرے ممالک میں دین پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے رائج ر ہی ہے ۔ کفار کے ساتھ سودی معاملات : اور اِسلام نے یہ اِجازت دی ہے کہ اُمورِ مملکت اور تجارتی معاملات جو غیر مسلموں سے ہوتے ہیں غیر مسلم حکومتوں سے ہوتے ہیں اُن میں سود لینا بھی جائز ہے دینا بھی جائز ہے کیونکہ وہ