ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2014 |
اكستان |
|
اگر غور سے دیکھا جائے تو دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر مسلمانوں کے بہانے سے اِسلام زیادہ نشانہ پر ہے اور صورتِ حال ایسی بنادی گئی ہے کہ اِسلام، مسلمان، مساجد اور مدارس گویا مصیبت کے ہم معنی ہوگئے ہیں، اِن کی دہشت زدہ تصویر بنا کر دُنیا کو ڈرایا جا رہا ہے۔ اِسلام کا تصورِ جہاد جو سماج سے فساد و ظلم کو ختم کرنے کے لیے ایک تعمیری عمل کے طور پر شرعًا مشروع ہوا ہے اُس کو دہشت گردی سے نتھی کر کے تخریبی عمل کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے، اِس کے مدِّ نظر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ہماری طرف سے اِسلام کی شبیہہ بگاڑ کر پیش کرنے کی مہم کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا جائے۔ اِس خاکسار نے دارُالعلوم دیو بند سے اِسلامی تعلیمات واَحکام کی روشنی میں دہشت گردی کے خلاف فتویٰ حاصل کر کے جمعیة علمائِ ہند کے اِجلاس ہائے عام کے علاوہ دیگر اِجلاسوں میں شرکاء خصوصًا مفتیانِ کرام، علمائے عظام سے توثیق و تجدید کرائی۔ خود دارُا لعلوم دیوبند نے کا نفرنس کر کے دہشت گردی کے متعلق مذمتی قرار داد پیش کر نے کے ساتھ اِسلام کے پیغامِ اَمن کو پیش کیا تھا۔ یقینا یہ بڑا کام اور اہم اِقدامات ہیں تاہم اِن کی ضرورت ختم نہیں ہوگئی ہے۔ ملک اور عالمی سطح پر اَمن کے پیغام کو پھیلانے اور دہشت گردی کی مذمت اُس وقت تک تسلسل کے ساتھ کرنے کی ضرورت رہے گی جب تک دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر اِسلام کی تصویر بگاڑنے اور اُس کو نشانہ بنانے کا عمل جاری رہے گا۔ اِس کانفرنس میں حضرت شیخ الہند کی تحریک کے حوالے سے برائے بحث و گفتگو جو عنوانات رکھے گئے ہیں، اُن کا قیامِ اَمن، اِنسانی حقوق کے تحفظ، اِسلام اور مسلم سماج کی شبیہہ بہتر طور سے سامنے لانے میں اہم رول ہوتا ہے۔ حضرت شیخ الہند اور اُن کے متعلقین و تلامذہ کی طرف سے آزادیٔ وطن اور ساتھ لے کر ملک میں زندگی گزارنے کے سلسلہ میں جو مشترکہ کردار ملتا ہے اُس کے تناظر میں دین و ملت، ملک اور عالمی اُخوت پر مبنی اِنسانی سماج و سیع ترین مفاد میں سوچنا ہوگا تاکہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے راہنمائی کا سامان بہم ہو سکے۔ (١) ہندوستان اور دیگر ممالک کی آزادی میں علماء کا کردار۔ (٢) اَمن کے قیام کے لیے علماء کا کردار اور اُن کے فرائض۔