ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
٭ اَسود ِ عنسی نے جب نبوت کا دعوی کیا تو ایک شخص عبداللہ بن ثوب رضی اللہ عنہ تھے اُن سے اِس کذاب نے کہا کہ میری نبوت کا اِقرار کرو۔ اُنہوںنے کہا کہ میں ہر گز تجھ کو نبی نہیں مانتا۔ اَسود نے کہا اچھا یہ بتاؤ کہ تم محمد (ۖ) کو نبی مانتے ہو؟ عبداللہ بن ثوب رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں۔ یہ سن کر اَسود ایسا براَفروختہ ہوا کہ آگ روشن کرنے کا حکم دیا اور اُس میں عبداللہ مذکور کو ڈالوادیا مگر آگ نے اُن پر کچھ اَثر نہ کیا، آخر اَسود نے اُن کو شہر بدر کرایا وہ مدینہ آئے جیسے ہی مسجد کے دروازے میں داخل ہوئے حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے اُن کو دیکھتے ہی فرمایا یہ وہ شخص ہے جس کو اَسود نے آگ میں جلانے کا اِرادہ کیا تھا مگر اللہ نے بچالیا۔ اِس قصہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہ کسی سے سنا تھا نہ مدینہ میں کوئی اِس حال سے واقف تھا پھر آپ نے کھڑے ہو کر عبداللہ بن ثوب رضی اللہ عنہ سے معانقہ کیا اور فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ حضرت اِبراہیم (خلیل اللہ )علیہ السلام کی شبیہہ اِس اُمت میں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ٭ مسلمانوں کا لشکر جب عراق کے اَندر حلوان کے دامن میں پہنچا اور نمازِ عصر کے لیے اَذان دی گئی تو پہاڑ سے اَذان کا جواب آیا، جب مؤذن نے کہا اللّٰہ اکبر تو پہاڑ سے آواز آئی کہ لَقَدْ کَبَّرْتَ کَبِیْرًا یعنی اے مؤذن تو نے بڑی ذات کی بڑائی بیان کی اور جب مؤذن نے اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہا تو پہاڑ سے آواز آئی کہ یہی وہ نبی ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی۔ اِس طرح ہر کلمہ کا جواب پہاڑ سے آیا۔ جب اَذان سے فراغت ہوئی تو مسلمانوں نے کہا کہ اے شخص اللہ تجھ پر رحمت نازل کرے تو فرشتہ ہے کہ جن ہے یا خدا کا کوئی بندہ تو نے اپنی آواز تو ہم کو سنا دی اَب اپنی شکل بھی ہم کو دِکھادے کیونکہ ہم لوگ رسول اللہ ۖ کے اصحاب اور عمر بن خطاب کے بھیجے ہوئے ہیں،یہ کہنا تھا کہ پتھر ایک جگہ سے شق ہوا اور ایک بوڑھے شخص نمودار ہوئے اُنہوںنے بعد سلام کہا کہ میرانام زریت بن برشملا ہے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا صحابی ہوں اُنہوں نے مجھے اِس پہاڑ میں ٹھہرایا تھا اور میرے لیے اپنے نزول تک درازیٔ عمر کی دُعاء مانگی تھی، اچھا عمر بن خطاب