ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
حقیقت ِدُعا : اِمام فخر الدین رازی تفسیرِکبیر میں لکھتے ہیں : حقیقة الدعاء استدعاء العبد ربہ جلّ جلالہ العنایة و استمدادہ یاہ المعونة ١ ''دُعا کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے رب سے مدد اور رحمت و عنایت کا طلبگار رہے۔'' اِس سے معلوم ہوا کہ دُعا کے مفہوم میں بہت وسعت ہے، اپنے دینی ودُنیوی مطالب، زبان سے، دل سے یاحال سے پیش کرنا، تسبیح وتہلیل کرنا، یادِ اِلٰہی میں لگے رہنا بھی دُعا کے مفہوم میں داخل ہے۔ اَصل عبادت یہ ہے کہ بندہ کی ہر اَداسے یہ ظاہر ہوتا رہے کہ یہ بندہ ہے اور وہ رب ہے، یہ مخلوق ہے اور وہ خالق ہے، یہ محتاج ہے وہ غنی ہے، یہ عاجزہے وہ قادرہے، جو اِس اَمر سے گریز کرتا ہے وہ دُعا کو مؤثر نہیں سمجھتا اور نہ وہ اپنے آپ کو '' عَبد'' اور ''ربُّ الارباب'' کو ''رب'' مانتا ہے، اِس کی سزا جہنّم ہے ۔ قرآن کہتا ہے : ( وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِ أَسْتَجِبْ لَکُمْ ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ ) ٢ '' اور تمہارے پروردگار نے کہاہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دُعائیں قبول کروں گا، بے شک جو لوگ تکبر کی بناء پر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، وہ ذلیل ہوکرجہنّم میں داخل ہوں گے۔'' حدیث میں آتاہے : اَلدُّعَائُ ہُوَ الْعِبَادَةُ یعنی ''دُعا اَصلِ عبادت ہے'' اور دُوسری حدیث میں آیاہے : اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَةِ یعنی ''دُعا مغزِ عبادت ہے۔'' اہل سنت (اَشاعرہ وماتریدیہ)کا دُعا کے متعلق عقیدہ : دُعا کی اہمیت واِفادیت کو اور اِس حقیقت کو کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیّت واِرادہ میں آزاد ہے، تسلیم کرتے اور اِس اَمر کے قائل ہیں کہ دُعا کو قبول کرنا اور اُس کا رَد کرنا اللہ تعالیٰ کے اِختیار میں ہے۔ ١ تفسیرِکبیر ج ٢ ص ٩٢١ ٢ سُورة المؤمن آیت ٥٩