ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ اِسلام میں اَدعیہ واَذکار کے نظام کونہایت بلند مقام حاصل ہے کتب ِحدیث میںر سول اللہ ۖ سے جن الفاظ سے دُعائیں اوراَذکار حدیث کی کتابوں میں منقول ہیں، وہ سب اِلہامی اور توقیفی ہیں۔ اِن الفاظ سے مانگنا اَجروثواب کاموجب اور بارگا ہِ اِلٰہی میں سب سے زیادہ محبوب ومقبول ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی (المتوفّٰی ٩١١ھ) نے ''تدریب الراوی'' میں تصریح کی ہے کہ دُعائیں توقیفی(اِلہامی) ہیں : لِاَنَّ اَلْفَاظَ الْاَذْکَارِ تَوْقِیْفِیَّة ۔( تدریب الراوی ص: ٤٠٦) اَذکار اور دُعاؤں کے الفاظ اِلہامی ہیں (یعنی اُن ہی الفاظ میں اُنہیں پڑھنا چاہیے )۔ ذکر و دُعا پر اِطمینانِ قلب کا الٰہی وعدہ : اِس دور میں جہاں ہر طرف سامانِ عیش وطرب کی فراوانی ہے ،خوش دلی و خوش حالی کا سامان بکثرت موجود اور با آسانی دستیاب ہے ، زند گی کے ہر میدان میں ترقی کی راہیں کشادہ ہیں پھر بھی دُنیا میں ہر جگہ معاشرہ گھٹن کا شکار ہے اور اِطمینانِ قلب کی دولت کا کہیں سراغ نہیں، اِس کے حصول کے لیے اِجتماعی اور اِنفرادی جو بھی کوشش ممکن ہے برابرجاری ہے لیکن تمام کوششیں رائیگاں جاتی ہیں۔ اِس کی بنیادی وجہ اسلام کے نظامِ اَذکار و اَدعیہ سے بے رغبتی ،غفلت و دُوری ہے ۔ دُنیا میں غفلت و دُوری کا یہ پردہ ہی وہ پردہ ہے جو اللہ تعالی کی اِطاعت و فرمانبر داری اور یادِ اِلٰہی سے دُور رکھتا ہے، دین ِحق قبول کرنے ،دعوتِ حق کو سننے سے مانع ہے اور آخرت میں اِنسان کو جہنم کا اِیندھن بناتا ہے۔قرآن کہتاہے : ( اَلَّذِیْنَ کَانَتْ أَعْیُنُھُمْ فِْ غِطَآئٍ عَنْ ذِکْرِْ وَکَانُوْا لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَمْعًا ) ( سُورة الکہف : ١٠١ ) '' جن کی آنکھوں پر(دُنیا میں) میر ے ذکر کی طرف سے پردہ پڑ ا ہوا تھا اورجو سُننے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔''