ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
تین طریقوں سے دُعاؤں کاآغاز : دُعاؤں کاآغاز تین طریقوں سے کیاجاتاہے اور یہ تینوں طریقے مسنون دُعائوں میں پائے جاتے ہیں، اُن میں کون سا طریقہ سب سے بہتر ہے ؟ اِس کی طرف علّامہ اِبن القیم الجوزی نے اِشارہ کیاہے چنانچہ وہ التفسیرالقیم میں رقم طراز ہیں : ''دُعائیں تین طرح سے مانگی جاتی ہیں : اَوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ سے اُس کے اَسماء وصفات کاواسطہ دے کر دُعا مانگی جائے جیسا کہ قرآنِ پاک میں اِرشاد ہے : (وَلِلّٰہِ الَْسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا)۔( سُورة الاعراف: ١٨٠) اور اَسمائِ حسنیٰ (اچھے نام) اللہ ہی کے ہیں، اُس کو اُن ہی ناموں سے پُکارو۔ دُوسرے یہ کہ تم اپنی حاجت، درماندگی ،ذِلت و عاجزی کا اِظہار کرو اور سائل بن کر مانگو جیسے یوں کہو : اَنَا الْعَبْدُ الْفَقِیْرُ الْمِسْکِیْنُ الْبَائِسُ الْمُسْتَجِیْر وغیرہ۔ تیسرے یہ کہ تم اُس کے آگے ہاتھ پسارو، اُس سے اِلتجاء اور درخواست کرو لیکن جو حاجت ہے اُس کا ذکر نہ کرو۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اَسمائِ حسنیٰ میں سے کسی اِسم کا وردتکرار کی وجہ سے ذکر کی حیثیت اِختیار کر لیتا ہے یا پھر دُعا کی صورت اِختیار کر جاتا ہے اِس لیے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کا ہر نام دُعاگو کی کسی ضرورت سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلی قسم ،دُوسری قسم سے زیادہ بہتر و زیادہ کامل ہے اور دُوسری قسم، تیسری سے زیادہ اچھی اور کامل تر ہے، جس دُعا میں یہ تینوں باتیں جمع ہوجائیںوہ اِن میں سب سے زیادہ کامل و جامع طریقۂ دُعا ہے ۔'' رسالت ِمآب ۖکی دُعائوں میں یہ تینوں باتیں پائی جاتی ہیں، حضرت اَبوبکر صدیق کی دُعائو ں میں بھی یہ تینوں خوبیاں یکجا موجود ہیں چنانچہ آپ کی مشہور دُعا ہے :