ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
قرآن میں فرمایا ہے : ( اُذْکُرُوْا اﷲَ قِیَاماً وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ ) کھڑے، بیٹھے اور لیٹے اللہ کو یادکرو۔رات میں ، دن میں، خشکی میں، سمندر میں، سفرمیں، وطن میں، تنگدستی میں، تونگری میں ، تندرستی میں، بیماری میں ، چُھپے اورکُھلے، ہرحال میں اللہ کاذکر کرو، اُس سے دُعامانگو۔'' اِس سے معلوم ہوا کہ اِسلام میں دوقسم کی عبادات ہیں، ایک وہ عبادات ہیں جو خاص وقت، خاص مقام، خاص ہیئت اور خاص شرائط کے ساتھ اَداکی جاتی ہیں۔ دُوسری وہ عبادات ہیں جن میں اِس نوع کی کوئی شرط وقیدنہیں ، یہ اَذکاراوردُعائیں وہ ہیں جن کا نفع عام وتام ہے۔ دُعا کے معنٰی : دُعاکے معنٰی لُغت میں بُلانا، پُکارنا، یادکرنا ہیں لیکن عرف اور شریعت میں اِس سے خاص معنی مُراد ہیں، علّامہ سیّد مرتضیٰ بلگرامی ثم زبیدی تاج العروس میں رقمطراز ہیں : ''الدعاء : الرغبة لی اﷲ فیما عندہ من الخیر، والابتہال لیہ بالسؤال، ومنہ قولہ تعالی : ( اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّ خُفْیَةً ِنَّہ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ) دُعا کے معنٰی : اللہ تعالیٰ کے یہاں جو کچھ خیراور بھلائی ہے اُس کی خواہش ورغبت کرنااور اُس کے سامنے عاجزی ونیازمندی سے سوال کرنا ہے چنانچہ اللہ تعالی کا اِرشاد ہے : اپنے پروردگار سے دُعاکرو عاجزی کے ساتھ چُپکے چُپکے، بیشک وہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ دُعا میں مُراد کا حاصل ہونا بھی مطلوب ومقصود ہوتا ہے اِس لیے اِس کے جواب میں اَجابت کالفظ آتا ہے کہ جس مقصد کے لیے درخواست کی گئی تھی وہ قبول ہوگئی ، اللہ تعالی کا اِرشاد ہے : ( وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِ أَسْتَجِبْ لَکُمْ)( سورة المؤمن: ٦٠) '' اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری درخواست قبول کروںگا۔''