ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
ہمارے ہاں کے بڑے، ہندوؤں سے ڈریں : تو ہمارے یہاں تو اِتنا اَفسوسناک حال ہے کہ ہمارے بڑے بڑے یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان بڑی طاقت ہے ہم اُس کے مقابلے میں بہت چھوٹی طاقت ہیں ہم اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتے تو یہ باتیں تو ویسے بھی غلط ہیں چاہے نہ کر سکتے ہوں پھر بھی نہیں کہتا کوئی ،پھر بھی کہتا ہے کہ اچھا دیکھا جائے گایہ کہنے کی باتیں ہیں۔ اور اِسلام والے تو کہہ ہی نہیں سکتے ایک اور دو کا تو مقابلہ ہے ہی ہے اُس میں تو جیت ہے ہی ہے کوئی بات ہی نہیں جبکہ عملاً ایسے ہے کہ ایک اور دس ایک اور بیس کا بھی مقابلہ ہو تو کامیابی ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ نے کامیابی دی ہے لیکن ظلم نہ ہو اور نیت جہادکی ہو خدا وند ِقدوس کی ذات ِ پاک کے لیے ہو تو پھر ہے جہاد۔ تو اِرشاد فرمایا کہ تُحِبَّ للِنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ جب رعایا بن جائے تو پھر اُس پر زیادتی نہیں کی جا سکتی ظلم نہیں کیاجاسکتا سمجھ لو کہ اگرمیں ہوتا توکیا ہوتا اور کتنا کام کرسکتا تھا بس اُتنا کام اور اُتنی ڈیوٹی اُن سے لی جائے۔ عدل پر مبنی تجارتی پالیسی : میں نے آپ کو بتایا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کے زمانے میںکچھ اَشیائے ضرورت جو تھیں وہ مہنگی ہو گئیں اُن سے کہا گیا کہ یہ کیا بات ہے ؟ تو اُنہوں نے کہاکہ مجھ سے پہلے جو گزرے ہیں وہ غیر مسلم رعایا کو جو سبزی ترکاری دالیں یا جو بھی چیز وہ لاتے تھے اُن کومجبور کرتے تھے کہ سستی بیچیں تو اُنہیں نفع کم سے کم ہوا بہت تھوڑانفع اور مسلمان زیادہ لے لیتے تھے نفع تو میں اُنہیں (کفار کو) مجبور نہیں کرتا۔اِس کابڑا اَثر پڑتا ہے اور اِس کا اَثر یہ ہوتا ہے کہ معاملات جب اچھے ہوں تو مسلمان ہوتے چلے جاتے ہیں تو قرآنِ پاک میں تو یہ ہے۔ اور جہاد کا فریضہ ہے اور اُس کی تیاری جبکہ ہمارے یہاں اِس سے بالکل غفلت ،سوئے ہوئے ہیںیہاں کوئی بھی آئے اور اپنے پنجے جمالے تو جوآج ہمارا حال ہے اِسی طرح ہم رہیں گے کل بھی ،کیونکہ لڑ سکتے ہی نہیں ٹریننگ ہی کوئی نہیں ،وجہ ؟ نافرمانی خدا کے حکم کی، اللہ نے توکہا ہے