ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
ہو اُس وقت یہ نہیں ہوتا کہ برائیاں نظر آئیں تو جو عام رواجی تعلق ہے یا محبتیں ہیں وہ اِسی قسم کی ہیں اور اِس میں اپنے آپ کو دَخل ہے اپنی ذات کو دَخل ہے اپنے نفس کو دَخل ہے اور بعض جگہ نفس کو نہیں ہے فطری طور پر ہی ہے اَولاد کے بارے میں ہے جیسے کسی اور کے بارے میں جو عزیز و اَقارب ہیں اُن کے بارے میں تواِس میں نفس کودَخل نہیں ہے فطری ہے ایک چیز ۔ تو ایسی چیزیں اگر ہوں تو یہ اِنسان کی جان کو نفس کو اِس میں دَخل ضرور ہوگا ۔ اپنی ''ذات'' کی نفی : یہ جو اِرشاد ہے آقائے نامدار ۖ کا اَنْ تُحِبَّ لِلّٰہِ وَتُبْغِضَ لِلّٰہِ کسی سے محبت ہو تو خدا کے لیے اور نفرت ہو تو خدا کے لیے، اِس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ذات کی اُس نے بیچ میں سے بالکل نفی کردی ،رہ گیا اللہ تعالیٰ کی ذات اور اُس کا حکم اور اُس کا اِرشاد اور اُس کی اِطاعت، جو وہ کر رہا ہے اُس سے اِس کو اُلفت ہوجاتی ہے اُس کی قدرو منزلت کرتاہے اور جس میں اُس سے کوتاہی ہے اُس سے یہ دُور ہوجاتا ہے اور وہی آدمی نیکی کرنے لگے بس ٹھیک ہے پھر اچھا لگنے لگتاہے اور اچھاآدمی برائی کی طرف چلا جائے تو یہ دُور ہوجاتا ہے اُس سے، تو معلوم ہوا کہ خود اپنے نفس کی نفی کا اِس میں دَخل ہے اِس لیے آقائے نامدار ۖ نے اِس کو بڑا درجہ دیا کیونکہ یہ ہر آدمی کے بس کی بات نہیں ہے کہ اپنی ذات اور اپنے نفس کی نفی اور'' فطرت ''جو اللہ نے رکھ دی ہے اُس کے اِستعمال پر اِتنا کنٹرول ہوجائے یہ ہر آدمی کے بس کی بات نہیں ہے، یہ تو بہت خاص لوگوں کے لیے ہے تو آقائے نامدار ۖ نے اِسے افضل ِایمان قرار دیا بہت افضل اِیمان بہت بہتر اِیمان۔ زبان کا عمل اللہ کی یاد : مزید اِرشاد فرمایا وَتُعْمِلَ لِسَانَکَ فِیْ ذِکْرِ اللّٰہِ اپنی زبان کو خدا کی یاد میں لگائے رکھو ،جہاں فرصت ملے خدا کی یاد میں لگائے رکھو یہ تو زبان کا ہوا، زبان سے ذکر مدد گار ہوتا ہے دِل سے یاد کرنے میں، ذکرِ لسانی اگر کرتارہے اللہ تعالیٰ کانام لیتا رہے تو قلب میں جو نام لیتا ہے اُس کو مدد پہنچتی ہے تو اَصل جو ہے وہ تو وہی(دل سے یاد کرنا)ہے۔ اور حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کی تحریرات میں میں نے ابھی کہیں