ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
کی فوج سامنے سے بھی آرہی ہے اور پیچھے سے بھی آرہی ہے جس کی لوگوں کو خبر نہیں یہ دیکھ کر میرا دِل قابو میں نہ رہا اور میں نے آواز دی کہ اے ساریہ پہاڑ سے مل جاؤ۔ تھوڑے دنوں کے بعد جب ساریہ رضی اللہ عنہ کا قاصد آیا تو اُس نے سارا واقعہ بیان کیا کہ ہم لوگ لڑائی میں مشغول تھے کہ یکایک آواز آئی یَا سَارِیَةُ ! الْجَبَلَ اِس آواز کو سن کر ہم لوگ پہاڑ سے مل گئے اور ہم کو فتح ملی۔ ٭ جب مصر فتح ہوا تو اہلِ مصر نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ (فاتح ِ مصر) سے کہا کہ ہمارے ملک میں کاشتکاری کا دارو مدار دریائے نیل پر ہے اور دریائے نیل کا یہ دَستور ہے کہ ہرسال ایک کنواری لڑکی جو حسن و جمال میں سب سے ممتاز ہوتی ہے دریا میں ڈال دی جاتی ہے اگر کسی سال ایسا نہ کیا جائے تو دریا نہیں بڑھتا اور قحط پڑ جاتا ہے ۔حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ حضرت فاروقِ اَعظم رضی اللہ عنہ کو لکھ کر بھیجا، آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ اِسلام ایسی وحشیانہ رسموں کی اِجازت نہیں دیتا اور آپ نے ایک خط دریائے نیل کے نام لکھ کر بھیجا جس کا مضمون یہ تھا : بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم یہ خط اللہ کے بندے عمر بن خطاب کی طرف سے نیل ِمصر کے نام ہے اگر تو اپنے اِختیار سے جاری ہے تو ہم کو تجھ سے کوئی کام نہیں اور اگر تو اللہ کے حکم سے جاری ہے تو اَب اللہ کے حکم سے جاری رہنا۔ اِس خط کے ڈالتے ہی دریائے نیل بڑھنا شروع ہوا ، سالہائے ما سبق کی بہ نسبت چھ گز زیادہ بڑھا اور اُس دِن سے یہ رسمِ بد موقوف ہوگئی۔ ٭ زمانۂ قحط میں جب حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے پانی برسنے کی دُعامانگی اور پانی برسا تو کچھ بدولوگ باہر سے آئے اور اُنہوں نے بیان کیا کہ اَمیر المومنین ہم لوگ فلاں دِن فلاں وقت اپنے جنگل میں تھے کہ یکایک اَبرا ٹھا اور اُس سے یہ آواز آرہی تھی : اَتَاکَ الْغَوْثُ اَبَا حَفْصٍ ، اَتَاکَ الْغَوْثُ اَبَا حَفْصٍ یعنی اے اَبو حفص ! آپ کے لیے بارش آگئی