ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
معلوم ہو ا کہ اللہ کی یاد ہی وہ بنیاد ہے جس سے بندے کا رِشتہ اللہ سے جڑتا اور قائم رہتا ہے ، قرآن کہتا ہے : ( اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ َلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ )(سُورةالرعد: ٢٨) ''یہ وہ لو گ ہیں جو اِیمان لائے ہیں اورجن کے دِل اللہ کے ذکر سے اِطمینان حاصل کرتے ہیں،یاد رکھو کہ صرف اللہ کا ذکرہی وہ چیز ہے جس سے دلو ں کو اِطمینان نصیب ہوتا ہے۔'' ذکر کے بھی درجات ہیں جس درجہ کا ذکر ہوتا ہے اُسی درجہ کا اِطمینان ہوتا ہے، ذ کر کی خاصیت ہی اِطمینانِ قلبی ہے۔جوذکر اللہ سے جُڑتا اور اُستوار ہوتا ہے اُس کا ہر لمحہ عبادت میں گزرتا اور وہ ہر حال میں خوش رہتا ہے۔ یہ اِسلام کا ایسا نظریۂ حیات ہے جس کی مثال عالَم کے مذاہب میں ملنی مشکل ہے۔ اِس نظام کی یہی سب سے بڑی خوبی ہے کہ بندہ کی زبان ہمہ وقت ذکر اللہ سے تر رہتی ، دل اللہ کی یاد سے آباد اور قناعت و غنا کی دولت سے ہمیشہ سر شار رہتا ہے۔ سخت سے سخت گھڑی اور کٹھن سے کٹھن منزل پر جزع و فزع ، گھبراہٹ اور بے چینی نہیں ہوتی، اُس کا سکون و اِطمینان برقرار رہتا ہے اِس لیے کہ اُس کا دل اور زبان یادِ اِلٰہی سے معمور ہے ۔ اَذکار و اَدعیہ کا اِسلامی نظام اِس نوع کی زندگی بناتا اور سنوارتا ہے کہ ہر لمحہ اور ہر آن عبادت میں گزرتا اور وہ اِطمینانِ قلب کی لذت سے لطف اَندوز ہوتا رہتا ہے۔ عالمِ اَسباب میں دُعا : یہاں یہ نکتہ بھی ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے کہ یہ دُنیا عالمِ اَسباب ہے، یہاں ہرکام کسی وجہ سے ہوتا ہے اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہرکام سلسلۂ اَسباب کی ایک کڑی ہے ،ہر ایک واقعہ کا کوئی نہ کوئی سبب ہے،اِس کا اِنکار گویا قانونِ فطرت کااِنکارہے اَلبتہ اَسباب کی پابندی سے کامیابی کا یقین نہیں ہوتا، اَسباب بذاتہا اگرمؤثر ہوتے تومطلوبہ نتیجہ ضرور حاصل ہوتا، ایسے ہی موقع پر اِنسان اپنے آپ کو عاجز