ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
نظامِ اَذکارواَدعیہ کی غایت : نظامِ اَذکارواَدعیہ کی غایت یہ ہے کہ ''اللہ کاذکر'' اللہ کی یاد اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، چلتے پھرتے دِل ودماغ میں ایسی رچ بس جائے کہ اُس کی کوئی حرکت اللہ کی یادسے خالی نہ ہو۔وہ کام کرے گا تو بسم اﷲ پڑھ کر کرے گا، ہرنعمت پر اُس کا شکر اَداکرے گا، ہر کوتاہی اورقصور پر اُس کے آگے معافی مانگے گا، حاجت کے وقت اُس کے حضور میں ہاتھ پسارے گا، ہرمشکل میں اُس کو پکارے گا، ہرمصیبت میں انا ﷲ کہے گا، کبریائی وعظمت کے موقع پر بے ساختہ اُس کے منہ سے اﷲ اکبرنکلے گا، ہرمعاملہ میں اُس کے آگے ہاتھ پھیلائے گا، کوئی بُری بات کان میں پڑے گی وہ معاذاﷲ اور نعوذباﷲ کہے گا،ہر نامناسب بات پر لاحول ولا قوة الا باﷲ کے الفاظ اُس کی زبان پر جاری ہوجائیںگے، اُٹھتے بیٹھتے ہرکام او رہربات پر الحمد ﷲ ، سبحان اﷲ ، ماشاء اﷲ ، انشاء اﷲ جیسے بابرکات کلمات اُس کی زبان سے اَدا ہوتے رہیں گے،یہ اللہ سے اُس کی محبت وتعلق کا نہایت بیّن ثبوت ہوگا۔ ذکراﷲ کرنے والوں کی شان یہ ہے کہ دُنیا کے معالات اور تجارت میں لگے ہوئے ہیں پھر بھی دِل اُن کے کہیں اور ہی اَٹکے ہوتے ہیں، نہ اُن سے فرائض کی اَدائیگی میں غفلت ہوتی ہے اور نہ وہ اَدائے حقوق میں سستی کرتے ہیں۔ اُن کی زبان بارک اﷲ ، یرحمک اﷲ ، یغفراﷲ ، رحمة اﷲ ، واﷲ ، باﷲ ، الا اﷲ اور اُردو میں اللہ کی رحمت ہو،اللہ ہدایت دے،اللہ برکت دے،اللہ صحت دے،اللہ رکھے، اللہ عافیت دے،اللہ خیریت سے پہنچائے،اللہ توفیق دے،اللہ خیرکرے، اللہ بخشے،اللہ رحم کرے، اللہ معاف کرے،اللہ کی پناہ،وغیرہ جملوں سے تررہتی ہے۔ صوفیہ کے اَوراد و اَذکار: صوفیہ کاطریقۂ سلوک، اَورادواَذکار اور اَشغال واَعمال کا دستورالعمل جو اِصلاحِ اَعمال و اَحوال کاکامیاب تجرباتی طریقۂ کارہے اِس نظام کاایک حصہ ہے چنانچہ شاہ عبد العزیز دہلوی رحمہ اللہ آیت شریفہ وَاذْکُرِاسْمَ رَبِّکَ۔( سُورة المُزمّل: ٨)''اور آپ اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرو'' کی تفسیر میں رقمطراز ہیں :