ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
اللّٰھُمَّ ِنِّْ ظَلَمْتُ نَفْسِْ ظُلْمًا کَثِیْرًا ۔ ''اے اللہ ! بے شک میں نے اپنی جان پر بہت ہی ظلم ڈھایا ہے۔'' یہ تو سائل کا حال ہے۔پھر جس سے در خواست کی جارہی ہے اُس کی صفت کا ذکر اِس طرح کیا جاتا ہے : وَاِنَّہ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ ِلاَّ َنْتَ اور بے شک تیرے سوا گناہوں کو معاف کرنے والا کوئی نہیںپھر فرمایا فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَةً مِّنْ عِنْدِکَ سو آپ اپنی طرف سے مجھے بخش دیجئے ۔ اِس جملے میں اپنی حاجت کا ذکر ہے اور دُعا کا خاتمہ دو اَسمائِ حسنیٰ غفور اور رحیم پرکیا گیا جو مطلوب کے مناسب اور اُس کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہیں چنانچہ خاتمۂ دُعا میں کہا گیا ہے : ِنَّکَ َنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ بلا شبہ آپ ہی بخشنے والے مہربان ہیں۔ لفظ اَللّٰھُمَّ سے دُعائو ں کاآغاز: اکثر و بیشتر دُعائوں کا آغاز اَللّٰھُمَّ کے لفظ سے ہوتا ہے۔مشہور تابعی و نامور محدّث اَبورَجاء عمران بن ملحان عطاردی( المتوفی١٠٥ھ )کا قول ہے کہ اَللّٰھُمَّ کے لفظ میں اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کے اَسرار جمع ہیں ۔ مشہور اِمام ِلغت نضر بن شمیل بصری (المتوفی ٢٠٤ھ )فرماتے ہیں کہ اَللّٰھمَّ اللہ تعالیٰ کے تمام اَسماء کاجامع ہے۔ دُعا میں حضورِ قلب : حکیم الامت حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ '' مہمّات الدعاء '' میں رقمطراز ہیں : ''صرف زبانی دُعا کہ آموختہ سا رَٹا ہوا پڑھ دیا، نہ خشوع نہ خشیت ، نہ دل میں اپنی عاجزی کا تصور ، یہ خالی اَز معنی دُعا کیا ہوئی؟ '' دُعا میں جب تک کہ پورے طور پر قلب کو حاضر نہ کرے گا اور عاجزی اور فروتنی کے آثار اُس پر نمایاں نہ ہوں گے، ایسی دُعا،دُعا نہیں خیال کی جاسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ تو قلب کی حالت کو دیکھتے ہیں۔