ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
کر مسبب الاسباب کی طرف لوٹتا اور اُسے پکارتاہے اور وہ اُس کی مراد کوپورا کرتا ہے۔ یہ اِس اَمر کی دلیل ہے کہ کائنات کا سارا نظام اللہ کے علم واِرادہ اور قدرت وحکمت کے ماتحت چل رہا ہے۔ دُعا ایک تدبیر وسبب ہے اور سنت اللہ اِس طرح جاری ہے کہ اَسباب کے بغیر مطلوب حاصل نہیں ہوتا، گو اُس کی قدرتِ کاملہ سے کچھ بعید نہیں کہ کبھی وہ سبب کے بغیر بھی مراد بَرلاتا ہے مگر ایسا بھی اُس کی حکمت ومصلحت سے ہوتاہے ۔ سلسلۂ سبب ومسبب کانام حکمت ہے۔ اُمت ِمسلمہ کامذہب یہ ہے کہ ''دُعا''،'' توکل'' اور ''عملِ صالح'' دُنیاوآخرت کے مقاصد کے حاصل کرنے میں ایک سبب کی حیثیت رکھتے ہیں اور معاصی سے بچنے کا ذریعہ ہیں، جو حکم کسی سبب سے وابستہ ہوتاہے اُس کے پورا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اُس کی شرائط کوپورا کیا جائے اور موانع اور رُکاوٹوں کو دُورکیاجائے پھر مسبَب پایاجائے گا ورنہ نہیں۔ نظامِ عبادت میں اَذکار اور دُعائیں : اِسلام میں اَدعیہ واَذکار کا نظامِ عبادت دُوسری اِسلامی عبادات کی طرح مخصوص شرائط ، اَوقات ومقامات کے ساتھ وابستہ اور خاص نہیں ہے جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰة او رجہاد وغیرہ میں وقت، مقام، ہیئت اور شرائط ضروری قرار دی گئی ہیں، اِس طرح کی شرائط اَذکار اوردُعاؤں کے نظا م میں لازمی اورضروری نہیں۔ اِبن اَبی حاتم، اِبن المنذر اور اِبن جریر نے بواسطۂ علی بن اَبی طلحہ الہاشمی (المتوفی ١٤٥ھ) ترجمان القرآن حضرت اِبن ِعباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیاہے ، وہ فرماتے ہیں : ترجمہ : '' اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کوئی عبادت فرض نہیں کی مگر اُس کے لیے حد مقررومتعیّن کی ہے (یہ مقررہ حد وقت، مقام، ہیئت وشرائط سے عبارت ہے) پھر حالت ِعُذر میں اُنہیں مہلت دی ہے،سوائے ذکر ودُعا کے کہ اللہ تعالیٰ نے ذکرودُعا کے لیے کوئی حدمقرر نہیں کی جس پر وہ ختم ہوتی ہو اور اُسے چھوڑدینے میں کسی کو معذور قرار نہیں دیا مگر اُس کو جواپنی عقل وفہم ہی کھو بیٹھے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے