ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
نفس کی فناء : اور ویسے سو چا جائے تو اِس میں گویا اپنے نفس کی فناء ہوگئی اپنی ذات اپنی خواہش اپنا اِرادہ کچھ نہیں رہا نفی کردی اُس نے، اپنے اِرادے سے جو محبت ہوتی ہے وہ تو بلا وجہ بھی ہوتی ہے اور اُس میں یہ ہوتا ہے کہ اُس آدمی کی برائی برائی نہیں لگتی اور برائی سامنے آتی ہی نہیں ،یہ مُتَنَبِّیْ ایک(عرب) شاعر گزراہے بلند پایہ شاعر تھا اِس لیے اِس نے نبوت کا دعوی کردیا کہ میرا معجزہ میرا کلام ہے تو اَشعار اُس کے بہت عمدہ ہیں بلا شبہ، آج تک بھی وہ اَشعار اُسی طرح اپنی جگہ بڑے معنی خیز بڑے لطیف جیسے دیوانِ غالب چلا آرہا ہے ،یہ بڑے بڑے شاعر گزرے ہیں اِن کا کلام اور اِن کو بڑا کہنا وہ اِسی وجہ سے ہے کہ اِن کی دقت ِ نظر اِن کی ذہنی پرواز بہت بلند ہے، اِسی طرح اِس کا بھی حال تھا۔ ٹھکائی سے ہی جھوٹے نبی کا دماغ درست ہو گیا : لیکن نبوت کا دعوی تو کسی کا سنا ہی نہیں گیا چلا ہی نہیں ہے کسی کا بھی تو اِس کی بھی اِسی طرح سے مرمت ہوئی تو یہ تائب ہوگیا کہ نہیں نہیں میں نبی نہیں ہوں پھر یہ جانے لگا بادشاہوں کے پاس پہلے وزراء کی تعریف کرتا تھا بعد میں وزراء سے آگے وزرائے اعظم کی اور خود نواب یا بادشاہ کی بس اور اُس سے نیچے لوگوں کی تعریف کو یہ سمجھتا تھا کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے اپنی توہین سمجھتا تھا کہ یہ میرے معیار سے گری ہوئی چیز ہے تو اُس نے ایک شعر بھی کہا ہے وَعَیْنُ الرِّضَا عَنْ کُلِّ عَیْبٍ کَلِیْلَة وَلٰکِنَّ عَیْنَ السُّخْطِ تُبْدِی الْمَسَاوِیَا یہ جو خوشی کی آنکھ ہے یعنی جس زمانے میں کوئی آدمی کسی سے خوش ہو اور تعلق رکھتا ہو تو یہ آنکھ جو ہے یہ ہر عیب دیکھنے سے عاجز ہوتی ہے عیب اِسے نظر ہی نہیں آسکتا اُس کی محبت جا گزیں ہے تو اُس کی برائی بھی کوئی بات نہیں، نظر اَنداز کرتا جاتا ہے۔ اور ناراضگی کی جو آنکھ ہوتی ہے وہ برائیاں دِکھاتی ہے کہ دیکھو اِس میں یہ خرابی ہے یہ خرابی ہے یہ خرابی ہے تو ناراضگی میں تو یہ ہوتا ہے کہ برائیاں نظر آئیں لیکن جس وقت اُس کو تعلق ِ خاطر ہو اور محبت