ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
لے یا جس کے لیے بُری فال لی جائے یا جو خود کہانت کرائے یا جس کے لیے کہانت کرائی جائے یا جو خود جادُو کرے یا جس کے لیے جادُو کیا جائے ، اور جو شخص کسی کاہن کے پاس آیا اور اُس کی باتوں کی تصدیق کی تواُس نے محمد ۖ پر نازل شدہ چیز (قرآن وشریعت ) کا (ایک طرح سے )کفر کیا۔'' خلاصہ یہ ہے کہ اِسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ تمام خیالات باطل ہیں بلکہ نقل کے خلاف ہونے کے علاوہ عقل کے بھی خلاف ہیں۔ ماہِ صفر سے متعلق بعض روایات کا تحقیقی جائزہ : منگھڑت اور اِیجاد کردہ باتوں کی کوئی بنیاد تو ہوتی نہیں لیکن جب جاہلوں یا اُن کے گمراہ کن رہنمائوں سے اِن باتوں کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے جو عوام میں مشہور ہو گئی ہیں تو وہ منگھڑت روایتیں اورغلط سلط دلیلیں پیش کرنا شروع کردیتے ہیں چنانچہ صفر کے مہینے کے منحوس ہونے کے متعلق بھی اِسی قسم کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ ۔(موضوعات ملا علی قاری ص ٦٩) '' جو شخص مجھے (یعنی بقول اُن لوگوں کے حضور ۖ کو )صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوشخبری دے گا میں اُس کو جنت کی بشارت دُوں گا۔'' اِس روایت سے یہ لوگ صفر کے مہینہ کے منحوس اور نامراد ہونے کی دلیل پکڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صفر میں نحوست تھی اِسی لیے تو نبی ۖ نے صفر صحیح سلامت گزرنے پر جنت کی بشارت دی ہے۔ اِس سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے کہ اَوّل تو یہ حدیث ہی صحیح نہیں بلکہ منگھڑت اورموضوع ہے یعنی حضور ۖ سے صحیح سند کے ساتھ اِس کا ثبوت نہیں بلکہ بعد کے لوگوں نے خود گھڑ کر اِس کی نسبت آپ ۖ کی طرف کردی ہے چنانچہ خود ملاعلی قاری رحمہ اللہ جو بہت بڑے جلیل القدر محدث ہیںوہ اِسے اپنی کتاب الموضوعات الکبیرمیں درج فرماکر اِس کو بے بنیاد اوربے اَصل قرار دے رہے ہیں ۔ دُوسرے اِس منگھڑت روایت کے مقابلے میں بے شمار صحیح اَحادیث صفر کے منحوس اور نامراد