ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
ی پہلے زمانے میں ایسی ہوتی تھی حرکتیں اَب شریعت نے منع کر دیا، یہ نہیں کرنا تو بنی آدم فرمایا اِنسانوں کو اور (کَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا) لوگوں کے لیے ۔ حاکم پر کافر سے اِنصاف بھی فرض ہے : اور یہ جو حکمران ہوگا یہ بھی لِلنَّاسِ ہوگا مسلمان بھی ہوں گے اور غیر مسلم بھی ہوں گے اور ہوسکتا ہے مسلمان تھوڑے ہوں غیر مسلم زیادہ ہوں،جب علاقے فتح ہو رہے تھے اُس زمانے میں مسلمانوں کی تعداد تھوڑی اور غیر مسلموں کی تعداد بہت زیادہ تھی تو یہ نہ ہو کہ تم اُن سے کوئی کام لو کوئی ڈیوٹی اَنجام دینے کو کہو اُن سے اور ایسی ڈیوٹی اور ایسی مشکل میں اُن کوڈال دو کہ جوتم خودنہ کر سکتے ہو ایسے نہ کرنا، یہ کیا ہے ؟ یہ رعایا کے ساتھ ظلم ہوجاتا ہے اور حاکم پر فرض ہے کہ رعایا کی رعایت کرے اور اُس کا فرض ہے کہ اُن کو اَمن پہنچائے اِنصاف پہنچائے اُن کی ضرورتوں کو فورًا پورا کرے کیونکہ خدا نے اُسے اِتنے وسائل دیے ہیں اِتنی طاقت دی ہے کہ وہ یہ کر سکتا ہے لہٰذا اُس کا فرض ہو گیا۔ اِقامت ِدین و جہاد بھی حاکم کا فریضہ ہے : اِقامت ِدین بھی فرض ہے جتنے فرائض ہیں سب پورے کرائے وہ لوگوں سے اور وہ کرا سکتا ہے تو کیسے نہیں کرے گا یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ چاہے اور نہ ہو ۔اور جہادکا فریضہ اِقامت ِفریضہ ٔ جہاد یہ حاکم کے ذمہ ہے اور آپ ذرا غور کرتے جائیں جب سے یہ کوتا ہی ہونے لگی ہے زوال ہی ہوا ہے اور قرآنِ پاک میں ( قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَةً ) جو تمہارے قریب کافر ہیں اُن سے لڑو اگر نہ مانیں باز نہ آئیں معاہدہ شکنی کریں وغیرہ وغیرہ تو لڑو ( وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَةً ) اور اُن کے لیے تمہارے اَندر سختی ہو نی چاہیے ،بالکل نرم بالکل حلوا ایسے نہ ہوں بلکہ تمہارے اَندر وہ سختی پائیں جب تمہیں جھانکیں دیکھیں تو پائیں کہ سخت ہیں تو سیدھے رہیں گے ورنہ وہ چکر بازی میں لگ جائیں گے ۔