ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
پردہ کے اَحکام ( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اَشرف علی صاحب تھانوی ) شہوت بالامارِد کی اِبتداء : یہ ناپاک فعل سب سے پہلے قومِ لوط میں رائج ہوا اُن سے پہلے آدمیوں میں اِس کا وقوع نہ ہوا تھا چنانچہ لوط علیہ السلام نے اُن سے فرمایا ( اَتَاْ تُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَکُمْ بِھَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ) گو حیوانات میں بعض کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اُن میں پہلے سے اِس کا وقوع تھا کتب ِسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فعلِ بد (خبیث) قومِ لوط نے خود بھی نہیں اِیجاد کیا تھا بلکہ شیطان نے اُن کو سکھایا تھا یہ فعل ایسا خبیث ہے کہ اِنسان کا نفس باوجود اَمَّارَة بِّالسُّوْئِ ہونے کے اِس کی طرف خود منتقل نہیں ہوا بلکہ شیطانِ خبیث نے اِس کی طرف قومِ لوط کو متوجہ کیاجس کا قصہ اِس طرح کتابوں میں لکھا ہے کہ شیطان خوبصورت لڑکے کی شکل میں ایک شخص کے باغ میں سے اَنگور توڑ توڑ کر کھایا کرتا تھا،باغ والا اُس کو دھمکاتا مارتا تھا مگر یہ باز نہ آتا۔ ایک دِن اُس نے تنگ آکر کہا کہ کمبخت تو نے میرے باغ کا پیچھا کیوں لیا ہے سارے درخت برباد کردیے تو مجھ سے کچھ روپے لے لے اور میرے باغ کا پیچھا چھوڑ دے۔ شیطان نے اَمرد (حسین لڑکے کی ) صورت میںکہا کہ میں اِس طرح باز نہیں آؤں گا، اگر تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہارے درختوں کا ناس نہ کروں تو جو بات میںکہوں اُس پر عمل کرو، اُس نے کہاوہ کیا بات ہے ؟ اِبلیس نے اُس کو یہ فعل تعلیم دی کہ میرے ساتھ یہ فعل کیا کر پھر میرے تیرے باغ کو چھوڑوں گاچنانچہ پہلی بار تو اُس نے جبرًاو قہرًا اپنے باغ کے بچاؤ کے لیے یہ فعل کیا پھر خود اُس کو مزا پڑ گیا وہ اُس کی خوشامدیں کرنے لگا کہ تو روز آیا کر اور جتنے اَنگور چاہے کھا لیا کر پھر اُس نے دُوسرے آدمیوں کی اِس کی اِطلاع دی اور لوگ بھی یہ فعل کرنے لگے پھر کیا تھا عام رواج ہو گیا۔ اِس کے بعد تو شیطان غائب ہوگیا لوگوں نے لڑکوں کے ساتھ یہ فعل کرنا شروع کردیا