ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
''یہاں اِس حقیقت کو سمجھ لیناچاہیے کہ اَذکارِ عشرہ (١)سبحان اﷲ کہنا (٢) الحمد ﷲ کہنا (٣) اﷲ اکبر کہنا (٤) کلمہ لاالہ الا اﷲ پڑھنا (٥) وحدہ لا شریک لہ کہنا (٦) لاحول ولا قوة الا باﷲ کہنا (٧) حسبنا اﷲ کہنا (٨) بسم اﷲ الرحمن الرحیم کہنا (٩) اللہ تعالیٰ سے اِستعانت مانگنا(١٠) برکت مانگنا۔ مذکورہ بالادس کلمات ہرشریعت میں مختلف الفاظ اور صیغوں کے ساتھ رائج اورقابلِ عمل ہیں''۔ دُعامانگنے کا سادہ اور آسان طریقہ : دُعامانگنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کی جائے پھر رب العالمین کے حضور میں عرض مدّعا کیاجائے، اِس اَنداز سے جو دُعا کی جائے گی وہ قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔ (اَبوبکر الجصاص، اَحکام القرآن ١/٤٢) دُعا نہایت عاجزی و اِنکساری سے کرنی اور خاموشی سے مانگنی چاہیے، اِس طرح دِکھاوے اور شہرت کا خطرہ نہیں رہتا، خاموشی سے دُعا مانگنا اللہ تعالی کو پسند ہے۔ دُعامیں خوف و طمع دونوں ہونی چاہئیں،قبولیت کی اُمید اور گناہوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے رَد ہونے کا کھٹکا رہنا چاہیے ۔ نااُمیدی بھی کفر ہے اور بے جا اِعتماد اور گھمنڈ بھی اچھا نہیں۔ دُعااور تعوذ کی مثال : اَدعیہ و تعوذاتِ ماثورہ ہتھیار کی حیثیت رکھتے ہیں،ہتھیار کی قدر و قیمت چلانے والے سے ہوتی ہے اُس کی دھار سے نہیں، اِس میں کامیابی کے لیے حسب ِذیل تین شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے : (١) ہتھیار درست ہو(٢)چلانے والے کے ہاتھوں میں جان ہو،سوجھ بوجھ بھی اچھی ہو(٣)کسی قسم کی رُکاوٹ بھی موجود نہ ہو،پھر نتیجہ صحیح نکلتا ہے۔ مذکورہ بالا تین شرطوں میں سے ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو نتیجہ صحیح نہیں نکلے گاچنانچہ ضروری ہے کہ (١)دُعا کے الفاظ صحیح یاد ہوں( ٢) دُعا مانگنے والے کے دِل و زبان میں موافقت ہوجو زبان سے اَدا ہو دِل بھی اُس کا ہمنوا ہو( ٣)کوئی اور چیز قبولیت ِدُعا سے مانع موجود نہ ہوپھر نتیجہ صحیح برآ مد ہوتا ہے ور نہ نہیں۔