انما سرق قال فاقطعوہ (فقطع) ثم سرق ایضا فقطع ثم سرق علی عہد ابی بکر فقطع ثم سرق فقطع حتی قطعت قوائمہ ثم سرق الخامسۃ فقال ابو بکر کان رسول اﷲ اعلم بہذا حیث امر بقتلہ اذہبوا بہ فاقتلوہ (مستدرک، حاکم ج۵ ص۵۴۵)‘‘ (خضر علیہ السلام نے صرف باطن شریعت یعنی حقیقت پر حکم کیا جیسے کشتی توڑ دی۔ ناکردہ گناہ لڑکے کو قتل کردیا یا بخیل گائوں کی دیوار سیدھی کردی اور موسیٰ علیہ السلام نے صرف ظاہر شریعت پر حکم کیا کہ ان تینوں امور میں حضرت خضر علیہ السلام سے مواخذہ کیا۔ جب انہوں نے حقیقت حال ظاہر کی تب مطمئن ہوئے۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے ظاہر شریعت پر بھی حکم فرمایا جیسا کہ عام احکام شرعیہ ظاہر ہی پر ہیں اور کبھی کبھی باطن اور حقیقت پر بھی حکم فرمایا جیسا کہ حدیث میں اس کی نظیر یہ ہے کہ حارث بن حاطب ایک چور کو لائے تو حضورﷺ نے فرمایا کہ اسے قتل کردو حالانکہ چوری کی ابتدائی سزا قتل نہیں تو صحابہؓ نے موسیٰ صفت بن کر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ اس نے تو چوری کی ہے (کسی کو قتل نہیں کیا جو قتل کا حکم فرمایا جاوے) فرمایا اچھا اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ اس نے پھر چوری کی تو اس کا (بایاں پیر) کاٹ دیا۔ پھر حضرت ابو بکرؓ کے زمانہ نے اس نے پھر چوری کی تو اس کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ چوتھی بار اس نے پھر چوری کی تو دایاں پیر بھی کاٹ دیا گیا۔ لیکن چاروں ہاتھ پیر کاٹ دئیے جانے کے باوجود اس نے پانچویں دفعہ پھر چوری کی تو صدیق اکبرؓ نے فرمایا کہ اس کے بارہ میں علم حقیقی رسول اﷲﷺ ہی تھا کہ آپ نے پہلی ہی بار ابتدا میں جان لیا تھا کہ چوری اس کا جزو نفس ہے۔ یہ چوروں کی سزائوں سے باز آنے والا نہیں اور ابتدا ہی میں اس کے باطن پر حکم لگا کر قتل کا حکم دے دیا تھا۔ ہمیں اب خبر ہوئی کہ جب وہ ظاہر میں ضابطہ سے قتل کے قابل بنا۔ لہٰذا اسے قتل کردو۔ تب وہ قتل کیا گیا۔ اس قسم کے بہت سے واقعات احادیث میں جابجا ملتے ہیں)
۳۲… (الف) اگر انبیاء سابقین کو شرائع اصلیہ دی گئیں تو آپﷺ کو آپﷺ کی امت کے راسخین فی العلم کو شرائع وضعیہ یعنی اجتہادی مذاہب عطا کئے گئے جن میں تشریع کی شان رکھی گئی ہے کہ آئمہ اجتہاد اصل شریعت کے احکام وعلل واوصاف اور اسرار وحکم میں شرعی ذوق سے غور وتدبیر کرکے نئے نئے حوادث کے احکام کا استخراج کریں اور باطن شریعت کھول کر نمایاں کردیں ’’لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم (نسائ:۸۳)‘‘ (اور جب ان کے پاس کوئی بات امن کی یا خوف کی پہنچتی ہے تو اسے پھیلا دیتے ہیں حالانکہ اگر اسے وہ پیغمبر کی طرف یا راسخین فی العلم تک پہنچا دیتے تو جو لوگ اس میں سے استنباط کرتے ہیں وہ اسے جان لیتے …جس سے استنباطی اور