بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضاداری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
کیا آپ نے ان تمام سوالات کا جو دعاوی کی تنقیح میں کئے گئے۔ کوئی جواب دیا؟ اگر دیا تو اعادہ فرما دیجئے۔ ورنہ میں اب چیلنج دیتا ہوں کہ تمام اعوان وانصار سے مشورہ کرکے جواب دے دیجئے۔
اسلام کی سترویں اٹھارویں فتح مبارک ہو!
اے ترک من منازکہ ترکی تمام شد
یہ ہے حقیقت ان نام نہاد مطالبات کی جو فاضل مضمون نگار نام خدا مجاہد ہزیمت! کی اس ترنگ میں سپرد قلم فرماگئے جو ’’کسنورٍ مغلوب یصول علی الاسد‘‘ کہلاتی ہے۔ مجاہد صاحب کو اس جسارت سے تو معلوم ہوتا ہے۔ کہ انہوں نے مطالبات کی اشاعت سے پہلے مولوی سرور شاہ قادیانی اور موسیو مرزا بشیر محمود قادیانی سے بھی استصواب رائے نہیں کیا۔ ورنہ وہ ہمارے ناتجربہ کار مجاہد کو ہرگز یوں بے تیروتفنگ رزمگاہ میں گھس جانے کی اجازت نہ دیتے۔ جس طرح وہ گھس آئے اور اب نکل جانا متعذر ہی نہیں محال ہوگیا۔ مگر مشہور ہے کہ گیڈر کی موت گیڈر کو شہر کی طرف لے جاتی ہے۔ بعینہ اسی جذبہ نے خدا جانے کس عالم خیال میں ہمارے فاضل مجاہد کے زرنگار قلم سے لایعنی مطالبات نکلوا کر انہیں جانکاہ وروح فرسا میدان میں لاکھڑا کیا اور اب میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے بجواب مطالبات عرض کیا وہ چند قطرے ہیں۔ اس غدیر عظیم کے جس نے نائب الرسول کے لبوں سے سر زمین انیچولی میں بہہ کر قصر غلمدیت کو غرق کردیا تھا۔ ایک تجلی مختصر ہے۔ اس سیف باقر کی جس نے بطل اسلام کے دجل شکن ہاتھ میں چمک کر مجسمہ مرزائیت کا خاتمہ کردیا تھا۔
……………………………
اب وہ مطالبات پیش کرتا ہوں جن کا وعدہ ابتدائے تحریر میں کرچکا ہوں۔ اگر ان کے اجوبہ کی طرف ہمارے فاضل مجاہد نے کچھ توجہ کی تو انشاء اﷲ مطالبات کا دوسرا نمبر پیش کروں گا مگر
امید جواب! اور ان سے
رازی! یہ جنوں نہیں تو کیا ہے