کیوں صاحب! آپ نے ان جوابات پر جو جرح وقدح کی تھیں؟ چھوأ تک نہیں اگر جرأت ہے تو اب چھو کر دکھا دیجئے۔ مگر وہاں تو:
دو چیز تیرۂ عقل ست دم فروبستن
بوقت گفتن وگفتن بوقت خاموشی
والا معاملہ ہے۔
اسلام کی پندرھویں فتح مبارک ہو!
۱۴… ’’نبی کریمﷺ تو ہر نماز میں اللّٰہم ارفعنی کہہ کر رفع کی خواہش کریں۔ مگر رفع جسمانی نہ ہو کیونکہ حنفی عقائد کی رو سے رفع سے رفع جسمانی مراد ہوتا ہے۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر اس قسم کی دعا کے رفع ہوجائے۔‘‘
فاضل کو مطالبہ تو یاد رہا مگر وہ تنقیحی سوالات بھی یاد رہے جو شیر اسلام نے کئے وہ کیوں یاد رہتے؟
نہ رود میخ آہنی درسنگ
میں پھر ان سوالات کی یاد دہانی کرتا ہوں۔ اگر آپ نے کچھ جواب دئیے ہوں تو ذرا تکلیف فرما کر اعادہ فرما دیجئے۔
۱… یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ آپ کی دعا میں رفع جسمانی مراد ہے؟
۲… اس کے متعلق کوئی حدیث پیش کی کہ حضورﷺ کی مراد رفع سے رفع جسمانی ہے؟
۳… یا اس کے متعلق کوئی حنفی عقائد کی کتاب دکھلائی اگر اس وقت نہ دکھلا سکے تو اب دکھلا دیجئے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ نہیں دکھلا سکو گے۔
علاوہ ازیں اگر اللّٰہم ارفعنی میں رفع جسمانی بھی مراد لے لیا جائے تو فاضل! ازروئے عقائد حنفیہ سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الیٰ المسجد الاقصیٰ میں رفع جسمانی نہیں تو اور کیا ہے؟ خوف کیجئے اس مالک الملکوت سے جس کے ہاتھ میں سارے غلمدیوں کی گردنیں ہیں۔
فاضل! ازروئے عقائد حنفیہ معراج ہوئی اور مع الجسد المبارک مگر بایں ہمہ کہا جاتا ہے کہ اللّٰہم ارفعنی کہنے کے باوجود رفع جسمانی نہیں ہوا۔