کہتے ہیں۔ اپنے منہ سے ایسی کرنے لگے اگلے منکروں کی بات سی۔ مارے ان کو اﷲ کہاں سے پھرے جاتے ہیں۔} دیگر آیت ’’وجعلوﷲ شرکاء الجن وخلقہم وخر قوالہ بنین وبنٰت بغیر علم (انعام:۱۰۰)‘‘ {اور ٹھہراتے ہیں شریک اﷲ کے جن اور اس نے ان کو بنایا اور تراشتے ہیں۔ اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں بن سمجھے۔}
اے قادیانی! کیا تمام قرآن سے بھی بے بہرہ ہو جو انکار ہے۔ ذرا غور کرو اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو صاف کافر ومشرک اور قاتلہم اﷲ کے مصداق فرماتا ہے۔ اب ایسے شخص کے پاس ہر گز نہ پھٹکنا۔
مرزا قادیانی کا روح انسان کی اصلیت کابیان
وصیت نمبر۲
فتح اسلام جلسہ مذاہب لاہور۲۷،۲۹؍دسمبر ۱۸۹۶ء میں فرمایا۔ روح انسان ایک لطیف نور ہے۔ جو اس جسم کے اندر ہی پیدا ہوتا ہے۔ جو رحم میں پرورش پاتا ہے۔ یہ بتلانا خدا کا منشاء نہیں کہ روح الگ طور سے یا آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ یا فضاء زمین پر آتی ہے۔ بلکہ یہ خیال کسی طرح صحیح نہیں۔ اگر ایسا خیال کریں تو قانون قدرت ہمیں باطل ٹھہراتا ہے۔ ہم ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں کہ گندے زخموں میں ہزارہاکیڑے پڑ جاتے ہیں۔ سو یہ ہی صحیح بات ہے کہ روح جسم سے نکلتی ہے اور اس دلیل سے اس کا حادث ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔
مرزا قادیانی کا اپنی حقیقت اصلی کا بیان
وصیت نمبر ۳
ازالہ ص ۳۷۷ ، خزائن ج ۳ ص ۲۹۴ میں اہنی اصلیت ایک (کرم) کے مانند بتلائی جو مختلف اطوار اور ادوار کے بود قادیانی بن گیا ۔ چنانچہ اس کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔
کرم کے بودم مرا کردی بشر
من عجب تراز مسیح بے پدر
اس شعر میں اپنی اصلی حقیقت حضرت مسیح بے پدر سے عجب تر ہونی بتلائی۔ لو خادمان قادیانی۔ آپ کے پیر صاحب تو در پردہ اس بیان استعارہ سے بے پدر کے پیدا ہوئے۔ واقعی اب مثیل عیسیٰ کی تشبیہ ٹھیک ہوگئی۔ اس کا ٹھیک جواب ان کے پدر بزرگوار یا اس محلہ کے لوگ دے