حالت پیدا ہوجائے۔ تو قدرت الٰہی سے کچھ محال نہیں۔ اس واسطے کے بموجب مقدمات گزشتہ کے ہر قسم کی قوت واستعداد انسان میں ضرور موجود ہے اور بالخصوص جس انسان کو کل افراد میں اکمل واعلیٰ ٹھہرایا ہے۔ اس میں یہ یہ قوتیں کیونکر جمع نہ ہوںگی۔
پس اس صورت میں لامحالہ کسی وقت میں اس کا ظاہر ہونا بھی چاہئے اور بعض فلسفی مذہب جو آیات اور حدیث میں تامل کرکے واقعہ معراج کو روحانی یا برسبیل خواب کہتے ہیں۔ تو اس میں بہت بڑی قباحت یہ ہے کہ اگر بالفرض ایسا ہوتا تو ایسے وقائع کو (جن کا وقوع عام لوگوں سے بعید نہیں۔ ) اس عظیم الشان کے ساتھ بیان فرمانا اور بے ضرورت صاف صاف معاملہ کو الہام کی وضع میں لاناہرگز شان الٰہی کے لائق نہیں۔
’’وما ہذا الا بہتان عظیم‘‘ لو صاحبو یہ خلاصہ متذکرہ بالا عقائد منقول اہل فہم وطالب حق کے لئے تو کافی ہے اور ایسے کم فہموں سے تو توقع کسی بدفہم ہی کو ہوتو وہ مگر ہاں یوں سمجھ کر دہلی اور میرٹھ وغیرہ کے پرانے تعلیم یافتوں میں سے شاید کسی کی نظر پڑ جائے تھوڑا بہت تفصیل وار بھی عرض کئے دیتا ہوں۔
خلاصۃ التفاسیر
قولہ تعالیٰ: ’’سبحن الذی اسری بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ الذی بٰرکنا حولہ لنریہ من اٰیتنا انہ ہو السمیع البصیر (بنی اسرائیل:۱)‘‘ {پاک ہے وہ ذات کہ لے گئی بندہ کو اپنے راتوں رات مسجد کعبہ سے طرف مسجد بیت المقدس کے ایسے کہ مبارک کردیا ہم نے گرد اگرد اس کا کہ دکھائیں ہم اسے نشانیاں اپنی بے شک وہ سنتا اور دیکھتا ہے۔}
سبحان
اسم علم ہے تسبیح کا یعنی پاک وتقدس تنزیہ اور سبح بمعنی نماز ونورانیت بھی آتا ہے۔
اسرا
بشب راہ رفتن۔
احمدی
لیل کو اس لئے ذکر کیا کہ اشارہ ہو مدت قلیل وسفر طویل کی طرف۔ فائدہ: اس لئے کہ لیل ظرف ہے ضرور ہے کہ تمام سیر ایک ہی رات کے اندر اور اس کے کسی حصہ میں ہو اور تعدیہ