خلاصتہ التفاسیر
یعنی یہ بقیہ جواب حضرت عیسیٰ نے عرض کیا۔ الٰہی میں نے تو ان سے وہی کہا جو تونے مجھے حکم دیا کہ یہ اﷲ کی بندگی کرو۔ جو ہمارا تمہارا سب کا رب ہے اور میں نے ان کی حالت اسی وقت تک جانتا تھا اور نصیحت کرتا تھا جب تک ان میں تھا۔ پھر جب تونے مجھے آسمان پر بلا لیا تو پھر تو ہی نگہبان تھا۔
مجھے کیا خبر اور تو سب کچھ جانتا ہے۔ تو بس اس سے صاف ظاہر ہے کہ بعد رفعہ اﷲ ہونے کے اس وقت کے لوگوں نے معبود بنایا اور انہیں کی ذریات ہنوز خدا کہتی ہیں۔ تو یہ لوگ مخالف حضرت مسیح ضرور ہوئے تو بموجب آیہ مذکور: ’’وجاعل الذین کفرو الی یوم القیمۃ (آل عمران:۵۵)‘‘ سے جیسا ہم سابق بیان کرچکے ہیں۔ اہل اسلام ہی مراد ہیں کہ یہ تمام انبیاء کے تابع ہیں اور زمانہ نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تابع مطابق شریعت محمدی رہیں گے اور یہ لوگ اس سوال وجواب سے مستثنیٰ ہیں۔ کیونکہ ان کو وعدہ غالب رہنے کا روز قیامت تک کا دیا گیا ہے اور بعد الی یوم القیمۃکے جو یہ فرمایا ’’ثم الی مرجعکم …الخ‘‘ تو یہ خبر ایمائے انی متوفیک کی ہے کہ بعد مدت پوری کرنے کے پھر تمہاری بازگشت میری طرف ہے۔ یعنی وہی وقت قرب قیامت کا زمانہ تمہاری موت کا ہے اور ہماری اس پیش گوئی کا ایفاء ہے جو کل انبیاء سے وعدہ لیا گیا تھا۔
تم کو وہ زمانہ نصیب ہو کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ اﷲ پاک کا فرمانا خالی از
یہ اقرار کل انبیاء اور معرفت ان کی سب لوگوں کی طرف ہے۔ آیت میں کمال فضل ومحبوبییت اور آپ کا سیدالانبیاء امام الرسل نبی جزوکل ہونا ظاہر ہوگیا اور تعمیل اس معاہدے کی اور پیغمبروں سے بذریعہ تعلیم وصیتا اور حضرت عیسیٰ سے باتباع ونصرت ہوگی۔