ہوں کہ آپ اپنے عقیدہ کی اصلاح فرمائیں۔ ایسا نہ ہو قیامت کے روز ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کے سامنے آپ کو شرمندہ ہونا پڑے۔ اگر آپ کسی خیال سے اس دنیاداری کو نہیں چھوڑ سکتے تو ایسے امور کی نسبت ضد نہ کیجئے۔ جس سے خاندان رسالت کی توہین ہو۔ بندہ خدا! دین اور چیز ہے۔ شرافت خاندانی اور چیز۔ اگر آپ نے دین بدل لیا تو اس کا یہ لازمہ نہیں کہ امام حسینؓ پر بھی آپ افضل ہوں۔ ورنہ کوئی دلیل ایسی قائم کریں جس سے خاص وعام پر آپ کا صدق معلوم ہو جائے۔ بغیر اس کے تو مخالف موالف سب یہی کہیں گے۔ صرف مسلمانوں کی عداوت اور دل آزاری بلکہ اہل بیت رسولﷺ کی عداوت ودشمنی نے آپ کے دل میں جوش مارا ہے۔ جو آپ کی قلم وزبان مبارک سے ٹپک رہی ہے۔ زیادہ عرض نہیں کر سکتا۔ ’’والعاقل تکفیہ الاشارۃ‘‘
خاتمۃ الکتاب
اب میں آخر میں آپ کو دوستانہ رائے دیتا ہوں کہ آپ اپنی تصنیفات میں اس قسم کے سلسلہ تحریر کو قطعاً قطع فرمائیے اور دوسرا سلسلہ شروع کیجئے۔ جس میں بزرگان دین سے کچھ علاقہ نہ ہو۔ اپنی ہٹ دھرمی اور ضد پر اصرار کرنا کوئی جوہر انسانیت نہیں ہے۔ مجھے امید واثق تھی کہ آپ بمجرد میری تحریر اوّل کے ’’بمفاد الکنایۃ ابلغ من التصریح‘‘ اپنی رائے سے رجوع فرماکر مجھے ممنون فرماویں گے اور اپنی حق پسندی کا کافی ثبوت دیں گے۔ لیکن آپ کے غصہ اور اندرونی حسد نے بنا ہوا کام بگاڑ دیا۔ خیر آپ باز نہ آئے اور اس سے زیادہ تفضیح اہل بیت رسالت کیجئے۔ میں یہ سمجھ لوں گا۔ ’’لیس ذلک باول قاروۃ کرت فی الاسلام‘‘
گر خدا خواہد کہ پردۂ کس درد
ملیش اندر طعنہ نیکاں برد
ہائے غضب اور ستم! کیا اسی کا نام اسلام ہے کہ ایسا حملہ پیغمبر کے نواسے زمین کربلا کے پیاسے مظلوم امام حسینؓ پر کیا جاوے۔ نہیں ہرگز نہیں! یہ گردن کشی ہے۔ مقدس اسلام کی تعلیم نہیں۔
افتاد کی برآورد از خاک دانہ را
گردن کسی بخاک نشاند نشانہ را
مرزاقادیانی! مجھے کسی طرح یہ منظور نہیں کہ آپ سے رنجش بے لطفی کی نوبت پہنچے۔ آپ پہلے ہی مرحلہ میں بھگوڑے ہوگئے۔ ابھی تو میدان مناظرہ میں صرف قدم ہی رکھا ہے۔ اگر