شخص سے محمد کا حواری نبی ہونے کا دعویٰ کرایا جائے۔ حکومت اس کی سرپرستی کرے۔ فیصلے کے تحت ایک بزرگ خواجہ احمد صاحب کو لدھیانہ میں مہاراجہ پٹیالہ جے سنگھ نے انگریزوں کی طرف سے پیش کش کی تھی۔ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں ایمان نہیں بیچ سکتا۔ اس امر کا تذکرہ مرزا غلام احمد کی موجودگی میں ہوا۔ مرزا قادیانی نے مہاراجہ سے مل کر ایمان کا سودا کرلیا۔ شاید مہاراجہ پٹیالہ کے احسان کا شکریہ کچھ اس طرح ادا کیا کہ مرزا نے اپنا الہامی نام امین الملک جے سنگھ بہادر بتایا۔ کیونکہ اس سکھ دلال کے ذریعہ مرزا خدا وندی فرنگی تک پہنچا۔ پس بیعت بھی لدھیانہ سے شروع ہوئی۔ اور مسیح ہونے کا اعلان بھی لدھیانہ سے ہوا تھا۔ مہاراجہ پٹیالہ نے انگریزوں کو نبی فراہم کیا تو مہاراجہ کشمیر نے اس کذاب کا معاون اور جعل سازی کو چلانے والا دماغ حکیم نور الدین انگریزوں کو بخشا۔ جو مہاراجہ کشمیر کا معالج خصوصی تھا۔
اس لئے تو مرزا قادیانی کو اپنی پہلی تصنیف براہین احمدیہ کی طباعت کے لئے ابتداء میں رقم ریاست پٹیالہ سے ملی تھی۔ جس کا اعتراف مرزا قادیانی نے خود اپنی تصنیف (حقیقت الوحی ص۳۳۷، خزائن ج۲۲ ص۳۵۰) پر یوں کیا ہے کہ :تازہ بہ تازہ کھجوریں گریں گی۔ چنانچہ میں نے اس کے حکم پر عمل کیا۔ اور خلیفہ محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ کی طرف خط لکھا۔ پس خدا نے جیسا کہ اس نے وعدہ کیا تھاان کو میری طرف مائل کردیا اور انہوں نے بلاتوقف ڈھائی سو روپیہ بھیج دیا اور پھر دوسری دفعہ ڈھائی سو روپیہ دیا۔‘‘
قادیانیوں سے ہندوئوں کی توقعات
اس مایوسی کے عالم میں ہندوستانی قوم پرستوں کو ایک ہی امید کی جو شمع دکھائی دیتی ہے وہ احمدی تحریک ہے۔ جس قدر مسلمان احمدیت کی طرف راغب ہوں گے وہ قادیان کو اپنا مکہ تصور کرلیں گے اور آخر میں محب ہند اور قوم پرست بن جائیں گے۔ مسلمانوں میں احمدیہ تحریک کی ترقی ہی عربی تہذیب اور پان اسلام ازم کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ ۔
(مضمون ڈاکٹر شنکر داس اخبار بندے ماترم ۲۲؍اپریل ۱۹۳۲ئ)
ض … ض … ض … ض