اپنے رفیق مار میں اکثر ہوتے ہیں۔ تو قادیانی صاحب کا بیان بھی کوئی قابل تعجب نہیں ہے۔ مگر اتنی عنایت فرمائیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ جو کچھ سلوک کیا۔ سو کیا اب اولاد کے پیچھے تو عند اﷲ نہ پڑیں یہ بڑی عنایت ہوگی۔
اثبات رفع جسمانی حضرت ادریس علیہ السلام
اگر حضرت ادریس علیہ السلام کا رفع معہ جسم کے ہونا ازروئے قانون فلسفہ قابل انکار ہے۔ تو اس قانون کی تردید کا ثبوت تو سابق گزر چکا مکرر بیان کی ضرورت نہیں اور اگر بخیال فاسد بحیلہ۔ کل نفس ذائقتہ الموت کے بھروسے ان کی حیات میں کچعھ تو ہم ہے تلو یہ وہی باعث قلت فہم ہے۔ جو قواعد مذکورہ بالا کے خلاف عالم بن بیٹھے ۔ ورنہ احادیث وتفاسیر وکتب سیروغیرہ معتبرہ میں ان کا بالتفصیل قصہ موجود ہے۔ اطمینان فرما لیجئے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ کا رفع بعد ذائقۃ الموت ہوا ہے اور جب یہ بات مسلم ہے کہ انبیاء حیات النبی ہیں۔ تو فقط حضرت ادریس علیہ السلام کے لئے خصوصیت ورفعناہ مکاناً علیا کی کیون ہوتی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آیت رفع جسمانی آسمانی کی شہادت دیتی ہے۔ ہر ایک تفسیر میں تحت آیت مذکور بالا میں مفصل کیفیت مذکور ہے۔ پس برخلاف جمہور کے مجرد رائی کے بھروسے پر اختلاف کرنا مخالفت اجماع وسابقین ہے۔ جو داخل کفر ہے۔
اب ہم اس اشتہار کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ جس کا اشارہ سابق مذکور ہوا تھا اگر چہ ضرورت کسی جواب کی باقی نہیں رہی۔ بایں وجہ کہ ان کے دعوے مثیل عیسیٰ ووحی والہام وطریقہ ایجاد جدید کی بیخ وبنیاد ثبوت بالا سے اکھڑ گئی تو منصف مزاج طالب حق عاقل کو اس قدر اثبات مذکور الصدر کافی ہے۔ مگر مزید اطمینان خادمان مثیل مسیح کو جو انہوں نے دربار حیات وممات حضرت عیسیٰ علیہ السلام دلائل فاسدہ۔ درج اشتہار کئے ہیں۔ ان کی قلعی کھولنا ضروری ہے۔ ورنہ بقول خوئے بدر ابہانہ بسیار کے حیلہ بوجہ تیرہ درونی کہنے کو تیار کہ اس کا جواب نہیں ہوا۔ لہٰذا جو کچھ اقوال خادمان وغیرہ نے دو ورقہ اشتہار میں شائع کئے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ یہ درپردہ بڑے پیر کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔ شعر:
چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں
ہے کوئی اور ہی اس پردہ زنگاری میں
کہنے کو تو خاکا خادمان، ملامی وغیرہ کا ہی اوڑے گا۔ ان مہملات کے بدلے ادھر سے