ہیں۔ ’’وجزاء سیئۃ مثلہا فمن عفا واصلح فاجرہ علی اﷲ انہ لا یحب الظلمین (شوریٰ:۴۰)‘‘ (اور برائی کا بدلہ اسی جیسی اور اتنی ہی برائی ہے۔ یہ خلق حسن ہے اور جو معاف کرے اور درگزر کرے تو اس کا اجر اﷲ پر ہے۔ اور اﷲ ظالموں کو (جو حدود سے گزر جانے والے ہوں) پسند نہیں کرتا)
۲۹… اگر شریعت عیسوی میں صرف باطنی صفائی پر زور دیا گیا ہے خواہ ظاہر گندہ ہی کیوں نہ رہ جائے نہ غسل جنابت ہے نہ تطہیر اعضائ، دوسری ملتوں میں صرف ظواہر کی صفائی پر زور دیا گیا ہے کہ غسل بدن روزانہ ضروری ہے خواہ باطن میں خطرات کفروشرک کچھ بھی بھرے پڑے رہیں تو شریعت محمدی میں طہارت ظاہر وباطن دونوں کو جمع کیا گیا ہے۔ ’’وثیابک فطہر (مدثر:۴)‘‘(اور اپنے کپڑوں کو پاک کرو) حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’فتیٰ ارفع ازارک فانہ انقی لثوبک واتقی لربک‘‘ ارشاد حدیث ہے۔ ’’السواک مطہرۃ للفم مرضاۃ لرب‘‘ (حضرت عمرؓ کی وفات کے قریب ایک نوجوان مزاج پرسی کے لئے حاضر ہوا جس کی ازار ٹخنوں سے نیچی زمین پر گھسٹتی ہوئی آرہی تھی۔ تو فرمایا کہ اے جوان لنگی ٹخنوں سے اوپر اٹھا کہ یہ کپڑے کے حق میں صفائی اور پاکی اور پروردگار کی نسبت سے تقویٰ (باطنی پاک) کا سبب ہوگی۔ جس سے ظاہری وباطنی دونوں پاکیوں کا مطلوب ہونا واضح ہے اور حدیث میں ہے کہ مسواک کرنامنہ کی تو پاکی ہے اور پروردگار کی رضا ہے۔ یعنی مسواک ظاہری اور باطنی دونوں پاکیاں پیدا کرتی ہے۔ جس سے ظاہر وباطن کی صفائی اور پاکی کا مطلوب ہونا نمایاں ہے)
۳۰… اگر اور ادیان میں اپنی اپنی قومیتوں اور ان ہی کے چھٹکارے کی رعایت ہے۔ مقولہ موسوی ہے۔ ’’ان ارسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبہم‘‘ (بھیج میری ساتھ بنی اسرائیل کو اور انہیں ستا مت) مقولۂ عیسوی ہے کہ میں اسرائیلی بھیڑوں کو جمع کرنے آیا ہوں۔‘‘ وغیرہ تو دین محمدی میں نفس انسانیت کی رعایت اور پورے عالم بشریت پر شفقت سکھلائی گئی ہے۔ ’’الخلق عیال اﷲ فاحب الخلق الی اﷲ من یحسن الیٰ عیالہ (مشکوٰۃ ص۴۲۵)‘‘ (ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے اور اﷲ کو سب سے زیادہ پیارا وہ ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ احسان سے پیش آئے)
۳۱… اگر اور انبیاء نے صرف ظاہر شریعت یا صرف باطن پر حکم کیا تو آپﷺ نے ظاہر وباطن دونوں پر حکم کیا اور آپ کو شریعت وحقیقت دونوں عطا کی گئیں۔ ’’عن الحارث بن حاطب ان رجلا سرق علی عہد رسول اﷲ ﷺ فاتیٰ بہ فقال اقتلوہ فقالو