اور ضروریات زمانہ کے مطابق ہوتا ہے۔ امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام پر اﷲ تعالیٰ کے لاتعداد احسانوں میں سے ایک بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے اپنے دین کے احیاء واجراء کی خاطر دنیا کو کسی دور میں بھی اپنے ’’عبادی الشکور‘‘ سے خالی نہیں رہنے دیا۔ تطہیروتعمیر فکر‘ اصلاح احوال، تجدید دین، تہذیب وتنظیم، دعوت وارشاد، تفقہ واجتہاد، تذکروتزکیہ، تنقید وتنقیح، حفظ وراثت ونبوت، جہاد بالسیف واللسان والقلم، قیام حق وہدایت فی الارض والامت کے لحاظ سے ان کے کارنامے جو انہوں نے اپنے عہد میں سرانجام دئیے۔ ناقابل فراموش ہیں۔
ایسے ہی کاملین میں بطور خاص قابل ذکر شخصیت ’’مجدد‘‘ کی ہے۔ مجدد اپنے فکر صحیح کے ساتھ اسلامی اخلاق کا کامل نمونہ ہوتا ہے۔ وہ ایک بے باک مبصر، مجسمۂ ایثار اور آئینہ اسلام ہوتا ہے۔ اور حق وباطل میں ذرہ بھر آمیزش اور کسی قسم کی مصالحت روا نہیں رکھتا۔ فوز وفلاح کے جتنے کچھ انعامات امت کو حاصل ہوتے ہیں۔ اسی کے وسیلہ سے ہوتے ہیں۔ جیسا کے خود شیخ احمد سرہندیؒ نے فرمایا ہے۔
مجدد آں است کہ ہر چہ درآں مدت از فیوض برائے امت
رسد بہ توسط اور سد اگر چہ اقطاب واوتاد دراں دقت باشند
مجددیت کی حقیقت
اﷲ تعالیٰ نے بنی نوع انسان پر جو گوناگوں احسانات فرمائے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ان کی ہدایت کے لئے اور اپنے قرب ورضا اور جنت کا ان کو مستحق بنانے کے لئے نبوت ورسالت کا سلسلہ جاری فرمایا۔ انسانی دنیا کے آغاز سے لے کر حضرت محمدﷺ کی بعثت تک یہ سلسلہ ہزاروں سال جاری رہا۔ اور انسانوں کی روحانی استعداد فطری طور پر بھی اور انبیاء علیہم السلام کی مسلسل تعلیم وتربیت کے ذریعہ بھی برابر ترقی کرتی رہی۔ یہاں تک کہ اب سے کوئی چودہ سو سال پہلے جب انسانیت روحانی استعداد کے لحاظ سے گویا بالغ ہوگئی۔ تو حکمت الٰہی نے فیصلہ کیا کہ اب ایک ایسی کامل ہدایت اور ایسا مکمل دین پوری انسانی دنیا کو عطا فرمادیا جائے۔ جو سب قوموں کے حسب حال ہو اور جس میں آئندہ کبھی کسی ترمیم وتنسیخ کی ضرورت نہ ہو اور ایک ایسے نبی ورسول کے ذریعہ اس ہدایت اور اس دین کو بھیجا جائے جو سب ملکوں اور سب قوموں کا نبی ہو اور پھر اسی پر نبوت کے اس سلسلہ کو ختم کردیا جائے۔ حکمت خداوندی نے اس فیصلہ کے مطابق حضرت محمدﷺ کو خاتم النبیین بنا کر ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور ان کے ذریعے بھیجے ہوئے مقدس صحیفۂ قرآن مجید میں ختم نبو ت اور تکمیل دین کا اعلان بھی فرما دیا۔