فائدہ… حضورﷺ کا خاتم النبیین ہونا ایسا عقیدہ ہے جس کی تصریح قرآن وسنت نے کی ہے۔ جس پر امت کا اجماع ہے پس جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ کافر ہوجائے گا وہ کذاب ہے دجال ہے وہ گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے۔
اگرچہ بدقسمتی سے امت اسلامیہ کئی فرقوں میں بٹ گئی ہے۔ باہمی تعصب نے بارہا ملت کے امن وسکون کو درہم بر ہم کیا۔ اور فتنہ وفساد کے شعلوں نے بڑے المناک حادثات کو جنم دیا۔ لیکن اتنے شدید اختلافات کے باوجود سارے فرقے اس پر متفق کہ حضورﷺ آخری نبی ہیں اور حضورﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔
چنانچہ چودہ صدیوں میں جس نے بھی نبی بننے کا دعویٰ کیا اس کو مرتد قرار دے دیا گیا۔ صحیح اسلامی سیاسی قوت نے اور نہ دینی عقل ودانش نے کبھی بھی نبوت کے کذاب دعویداروں سے کسی مصلحت کے تحت کو ئی سمجھوتہ کیا۔ بلکہ ہر لحاظ سے ان کے خلاف جہاد روا رکھا۔ بلکہ فرض سمجھا۔ حدیث وتاریخ سے ثابت ہے کہ مسیلمہ کذاب خود دعویٰ نبوت کے باوجود حضورﷺ کو بھی اﷲ کا رسول سمجھتا تھا۔
بلکہ طبری کی روایت کے مطابق اپنی اذان میں ’’اشہد ان محمد رسول اﷲ‘‘ بھی کہتا تھا۔ اس کے باوجود سیدنا صدیق اکبرؓ نے اس کو مرتد اور واجب القتل یقین کرکے اس پر لشکر کشی کی اور اس کو واصل جہنم کرکے دم لیا۔ بیشک اس جہاد میں ہزاروں کی تعداد میں تابعین حفاظ اور جلیل القدر صحابہؓ شہید ہوئے تھے۔ لیکن صدیق اکبرؓ نے اتنی قربانی دے کر بھی اس فتنے کو کچلنا ضروری سمجھا اور کمال یہ ہے کہ دور صدیقی کے تمام صحابہ کرامؓ وتابعینؒ اس عظیم فتنے کو ختم کرنے پر متفق ہیں۔
تصویر کا پہلا رخ
اور مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری والا معاملہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی دعوائے نبوت سے قبل تقریباً ۱۹۰۱ء تک اسی عقیدہ ختم نبوت میں امت اسلامیہ کا ہم نوا ہے۔ چند حوالہ جات کو پڑھیے۔ جو مرزا قادیانی کے ۱۹۰۱ء سے پہلے کی خود تحریر کردہ ہیں:
۱… ’’کیا ایسا مفتری بدبخت جو خود رسالت ونبوت کا دعویٰ کرتا ہے قرآن شریف پر ایمان رکھ سکتا ہے۔ اور کیا ایسا وہ شخص جو قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہے۔ اور آیت ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ کو خدا کا کلام یقین کرتا ہے۔ وہ کہہ سکتا ہے کہ میں آنحضرت ﷺ کے