التوراۃ فقال یا رسول اﷲ ہذہ نسخۃ من التوراۃ فسکت۔ فجعل یقرأء ووجہ رسول اﷲﷺ یتغیر فقال ابو بکر ثکلتک الثواکل ما تری ما بوجہ رسول اﷲﷺ فنظر عمرا لیٰ وجہ رسول اﷲﷺ فقال اعوذ باﷲ من غضب اﷲ وغضب رسولہ رضینا باﷲ ربا وبالاسلام دینا وبمحمد نبیاً فقال رسول اﷲﷺ والذی نفس محمد بیدہ لو بدالکم موسیٰ فاتبعتموہ وترکتمو نی لضللتم عن سواء السبیل ولو کان حیاً وادرک نبوتی لاتبعنی (دارمی ج۱ ص۱۱۵، عن جابر)‘‘ (حضرت عمرؓ تورات کا ایک نسخہ حضورﷺ کے پاس لے آئے اور عرض کیا کہ یہ تورات ہے۔ آپ خاموش رہے تو انہوں نے اسے پڑھنا شروع کردیا اور آپﷺ کا چہرۂ مبارک غصہ سے متغیر ہونا شروع ہوگیا تو صدیق اکبرؓ نے حضرت عمرؓ کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’تجھے گم کردیں گم کرنے والیاں کیا چہرہ نبوی کا اثر تمہیں نظر نہیں آرہا؟‘‘ تب حضرت عمرؓ نے چہرہ اقدسﷺ کو دیکھا اور دہل گئے، فوراً زبان پر جاری ہوگیا) میں پناہ مانگتا ہوں اﷲ کے غضب سے اور اس کے رسولﷺ کے غضب سے ہم راضی ہوئے اﷲ سے بلحاظ رب ہونے کے اور راضی ہوئے اسلام سے بلحاظ دین ہونے کے اور راضی ہوئے محمدﷺ سے بلحاظ نبی ہونے کے۔ تو رسولﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر آج تمہارے پاس موسیٰ آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کا اتباع کرنے لگو تم بلاشبہ سیدھے راستے سے بھٹک جائو گے اور اگر آج موسیٰ زندہ ہوکر آجائیں اور میری نبوت کو پالیں تو وہ یقیناً میری ہی اتباع کریں گے۔‘‘)
۲۲… اگر اور انبیاء کو دین عطا کیا گیا تو آپﷺ کو کمال دین دیا گیا جس میں نہ کمی کی گنجائش ہے نہ زیادتی کی۔ ’’الیوم اکملت لکم دینکم (مائدہ:۳)‘‘ (آج کے دن میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا جس میں نہ اب کمی کی گنجائش ہے نہ زیادتی)
۲۳… اگر اور انبیاء کو ہنگامی دین دئیے گئے تو حضورﷺ کو دوامی دین عطا کیا گیا۔ ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (مائدہ:۳)‘‘ (آج کے دن میں نے دین کو کامل کردیا۔ جس میں کوئی کمی نہیں رہی تو کسی نئے دین کی ضرورت نہیں رہی۔ پس وہ منسوخ ہوگیا جس سے اس دین کا دوامی ہونا ظاہر ہے۔ اور پہلے ادیان میں کمی تھی جس کی اس دین سے تکمیل ہوئی تو پچھلے کسی نا تمام دین کی اب حاجت نہیں رہی پس وہ منسوخ ہوگیا جس سے اس کا ہنگامی ہونا ظاہر ہے)
۲۴… اگر اور انبیاء کو دین عطا ہوا تو آپ کو غلبہ دین کیا گیا۔ ’’ہو الذی ارسل رسولہ