جنت کھولا جائے گا)
۱۷… اگر اور انبیاء باب جنت کھلنے پر ابھی داخلہ کے آرزو مند ہی ہوں گے تو آپ سب سے اول جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ ’’وانا اوّل من یدخل الجنۃ یوم القیٰمۃ ولا فخر (خصائص الکبریٰ ج۳ ص۲۴۲)‘‘ (روز قیامت میں ہی سب سے پہلے جنت میں داخل ہونگا۔ مگر فخر سے نہیں کہتا)
۱۸… اگر اور انبیاء کو علوم خاصہ عطا ہوئے تو آپﷺ کو علم اوّلین وآخرین دیا گیا۔ ’’اوتیت علم الاولین والآخرین (خصائص الکبریٰ ج۳ ص۲۱۸)‘‘ (مجھے علم اوّلین وآخرین دیا گیا ہے جو الگ الگ انبیاء علیہم السلام کو دیا گیا تھا جیسے آدم علیہ السلام کو علم اسمائ۔ یوسف علیہ السلام کو علم تعبیر خواب، سلیمان علیہ السلام کو علم منطق الطیر، خضر علیہ السلام کو علم لدنی، عیسیٰ علیہ السلام کو حکمت وغیرہ)
۱۹… اگر اور انبیاء کو خلق حسن عطا ہوا حسن کے معنی معاملات میں حدود سے نہ گزرنے کے ہیں اور خلق کریم عطاء جس کے معنی عفو ومسامحہ کے ہیں تو آپ کو خلق عظیم دیا گیا جس کے معنی دوسروں کی تعدی پر نہ صرف ان سے درگزر کرنے اور معاف کردینے کے ہیں بلکہ ان کے ساتھ احسان کرنے اور حسن سلوک سے پیش آنے کے ہیں جو تمام محاسن اخلاق اور مکارم اخلاق دونوں کا جامع ہے۔ ’’وانک لعلیٰ خلق عظیم (القرآن الحکیم)‘‘ (خلق حسن یہ ہے کہ ظلم کرنے والے سے اپنا حق پورا پورا لیا جائے۔ چھوڑا نہ جائے مگر عدل وانصاف جس میں کوئی تعدی اور زیادتی نہ ہو۔ یہ مساوات ہے اور خلاف رحمت نہیں۔ خلق کریم یہ ہے کہ ظالم کے ظلم سے درگزر کرکے اپنا حق معاف کردیا جائے۔ یہ کریم النفس ہے اور فی الجملہ رحمت بھی ہے کہ اگر دیا نہیں تو لیا بھی نہیں اور خلق عظیم یہ ہے کہ ظالم سے نہ صرف اپنے حق کی ادائیگی معاف کردی جائے بلکہ اوپر سے اس کے ساتھ سلوک واحسان بھی کیا جائے جب کہ وہ حق تلفی کررہا ہو۔ اس خلق کی روح غلبہ رحمت وشفقت اور کمال ایثار ہے اسی کو فرمایا کہ اے نبی! آپ خلق عظیم پر ہیں)
۲۰… اگر اور انبیاء متبوع امم اقوام تھے تو حضور متبوع انبیاء ورسل تھے۔ ’’لو کان موسیٰ حیا ما وسعہ الاتباعی (مسند احمد ج۳ ص۳۸۷)‘‘ (اگر موسیٰ آج زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے سوا چارۂ کار نہ تھا)
۲۱… اگر اور انبیاء کو قابل نسخ کتابیں ملیں تو آپ کو ناسخ کتاب عطاء ہوتی۔ ’’ان عمراتیٰ النبیﷺ بننسخۃ من التوراۃ