(شفاعت کے سلسلہ میں اس حدیث طویل میں ہے کہ جب اولین وآخرین کی سرگردانی پر اور طلب شفاعت پر سارے انبیاء جواب دیں گے کہ ہم اس میدان میں نہیں بڑھ سکتے اور لوگ آدم علیہ السلام سے لے کر تمام انبیاء علیہم السلام ورسل تک سلسلہ وار شفاعت سے عذر سنتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچیں گے۔ اور طالب شفاعت ہوں گے تو فرمائیں گے کہ: ’’جائو محمد ﷺ کے پاس تو آدم علیہ السلام کی ساری اولاد آپ کے پاس حاضر ہو گی اور عرض کرے گی کہ اے محمدﷺ! آپ اﷲ کے رسول ہیں اور خاتم الانبیاء ہیں (گویا آج سارے عالم کو رسالت محمدی اور ختم نبوت کا اقرار کرنا پڑے گا) آپ کی اگلی اور پچھلی لغزشیں سب پہلے ہی معاف کردی گئی ہیں۔ (یعنی آپ کے لئے اس عذر کا موقع نہیں جو ہر نبی نے کیا کہ میرے اوپر فلاں لغزش کا بوجھ ہے میں شفاعت نہیں کرسکتا کہیں مجھ سے ہی باز پرس نہ ہونے لگے) اس لئے آپ پروردگار سے ہماری شفاعت فرمائیں تو آپ اسے بلاجھجھک اور بلا معذرت کے قبول فرمالیں گے اور شفاعت کبریٰ کریں گے)
۱۴… (الف) اگر تمام انبیاء قیامت کی ہولناکی کے سبب شفاعت سے بچنے کی کوشش کریں گے اور لست لہا لست لہا میں شفاعت کا اہل نہیں ہوں) کہہ کر پیچھے ہٹ جائیں گے تو حضور کے دعوے کے ساتھ انا لہا انا لہا (میں اس کا اہل ہوں)کہہ کر آگے بڑھیں گے اور شفاعت عامہ کا مقام سنبھال لیں گے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ عن سلمان)
(اس روایت کی بھی وہی تفصیل ہے جو ۱۳ میں گزری)
۱۴… (ب) اگر انبیاء ابھی میدان حشر میں ہوں گے تو آپ سب سے پہلے ہوں گے جو پل صراط کو عبور بھی کرجائیں گے۔ ’’یضرب جسر جہنم فاکون اول من یجیز (خصائص الکبریٰ ج۳ ص۲۴۰، بخاری ومسلم عن ابی ہریرہؓ)‘‘ (جہنم پر پل تان دیا جائے گا تو سب سے پہلے اسے عبور کرنے والا میں ہوں گا)
۱۵… اگر اور انبیاء اور اولین وآخرین ہنوز پیش دروازہ جنت ہی ہوں گے تو آپ سب سے پہلے ہوں گے جو دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ ’’انا اوّل من یقرع باب الجنۃ (خصائص الکبریٰ ج۳ ص۲۴۱)‘‘ (میں سب سے پہلے دروازہ جنت کھٹکھٹائوں گا)
۱۶… اگر اور انبیاء اور اقوام انبیاء ہنوز داخلہ جنت کی اجازت ہی کے مرحلہ پر ہوں گے تو آپ کے لئے سب سے پہلے دروازہ جنت کھول بھی دیا جائے گا۔ ’’انا اوّل من تفتح لہ ابواب الجنۃ (ابونعیم وابن عساکر عن حذیفہ)‘‘ (میرے لئے سب سے پہلے درورازہ