خود رسول دورمحمدی نہ پائیں۔ جیسے تمام انبیاء سابقین جو دورمحمد سے پہلے گزر گئے اور آپ کا دور شریعت انہوں نے نہیں پایا)۳… اگر اور انبیاء عابد ہیں تو آپﷺ کو ان عابدین کا امام بنایا گیا۔ ’’ثم دخلت بیت المقدس فجمع لی الانبیاء فقد منی جبریل حتیٰ امتہم (نسائی ج۱ ص۴۷، عن انس)‘‘ (شب معراج کے واقعہ کا ٹکڑا ہے کہ پھر میں داخل ہوا۔ بیت المقدس میں اور میرے لئے تمام انبیاء کو جمع کیا گیا۔ تو مجھے جبرائیل علیہ السلام نے آگے بڑھایا یہاں تک میں نے تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت کی)
۴… اگر اور انبیاء اپنے ظہور کے وقت نبی ہوئے تو آپ اپنے وجود ہی کے وقت سے نبی تھے جو تخلیق آدم کی تکمیل سے بھی قبل کا زمانہ ہے۔ ’’کنت نبیا وآدم بین الروح والجسد (مسند احمد ج۴ ص۳۰۱)‘‘ (میں نبی تھا اور آدم ابھی تک روح اور بدن کے درمیان ہی تھے۔ یعنی ان کی تخلیق ابھی مکمل نہ ہوئی تھی)
۵… اگر اوروں کی نبوت حادث تھی جو حضور کی نبوت عالم خلق میں قدیم تھی۔ ’’قال ابوہریرۃؓ متی وجبت لک النبوۃ؟ قال بین خلق آدم ونفخ الروح فیہ (مستدرک حاکم ج۳ ص۵۰۹، حدیث نمبر۴۲۶۶، بیہقی وابونعیم)‘‘ (ابو ہریرہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! آپ کی نبوت کب ثابت ہوئی؟ آپ نے فرمایا: ’’آدم کی پیدائش اور ان میں روح آنے کے درمیان میں۔‘‘)
۶… اگر اور انبیاء اور ساری کائنات مخلوق ہیں تو آپ مخلوق ہونے کے ساتھ ساتھ سبب تخلیق کائنات بھی ہیں۔ ’’فلولا محمد ماخلقت آدم ولا الجنۃ ولا النار (مستدرک)‘‘ (’’اگر محمدﷺ نہ ہوں (یعنی میں انہیں پیدا نہ کروں) تو نہ آدم کو پیدا کرتا۔ نہ جنت ونار کو۔ ‘‘)
۷… اگر عہد الست میں اور انبیاء مع تمام اولاد کے بلیٰ کے ساتھ مقرتھے تو حضور اوّل المقرین تھے جنہوں نے سب سے پہلے بلیٰ کہا اور بلیٰ کہنے کی سب کو راہ دکھلائی ۔ ’’کان محمد ﷺ و اوّل من قال بلیٰ ولذالک صار یتقدم الانبیاء وہو آخر من بعث (خصائص الکبریٰ ج۱ ص۹)‘‘ (محمد ﷺ نے سب سے پہلے (عہد الست کے وقت) بلیٰ فرمایا: اسی لئے آپ تمام انبیاء پر مقدم ہوگئے در حال یہ کہ آپ سب کے آخر میں بھیجے گئے ہیں)