پھر حدیث ابی ہریرہؓ میں اس اوّلیت وآخریت جیسی اضداد کے جمع ہونے کی نوعیت پر روشنی ڈالی گئی۔ کہ:
ض… ’’کنت اول النبیین فی الخلق وآخرہم فی البعث (کنزالعمال ج۱۱ ص۴۵۲)‘‘ {میں نبیوں میں سب سے پہلا ہوں بلحاظ پیدائش کے اور سب سے پچھلا ہوں بلحاظ بعثت کے۔}
اس لئے حقیقی طور پر آپﷺ کی امتیازی شان محض نبوت نہیں بلکہ ’’ختم نبوت‘‘ ثابت ہوتی ہے جس سے آپﷺ کے لئے یہ فاتح وخاتم اور اول وآخر ہونا ثابت ہے اور آپﷺ سارے طبقۂ انبیاء میں ممتاز اور فائق نمایاں ہوئے اور ظاہر ہے کہ جب نبوت ہی سارے بشری کمالات کا سرچشمہ ہے اور اس لئے سارے انبیاء علیہم السلام سارے ہی کمالات بشری کے جامع ہوئے ہیں تو قدرتی طور پر ’’خاتم نبوت‘‘ کے لئے صرف جامع کمالات ہونا کافی نہیں۔ بلکہ خاتم کمالات ہونا بھی ضروری ہے یعنی آپﷺ کا ہر کمال انتہائی کمال کا نقطہ ہونا چاہئے۔ ورنہ ختم نبوت کے کوئی معنی ظاہر نہیں ہوسکتے۔ اندریں صورت جہاں یہ ماننا پڑے گا کہ جو کمال بھی کسی نبی میں تھا۔
وہ بلاشبہ آپﷺ میں بھی تھا وہیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آپﷺ میں وہ کمال سب سے پہلے تھا اور سب سے بڑھ چڑھ کر تھا اور امتیاز وفضیلت کی انتہائی شان لئے ہوئے تھا اور یہ کہ وہ کمال آپﷺ میں اصلی تھا اور اوروں میں آپﷺ کے واسطہ سے تھا۔ پس آپﷺ جامع کمالات ہی نہیں بلکہ خاتم کمالات اور خاتم کمالات ہی نہیں فاتح کمالات … اور سرچشمہ کمالات اور فاتح کمالات ہی نہیں بلکہ منتہائے کمالات اور منتہائے کمالات ہی نہیں بلکہ اعلیٰ الکمالات اور افضل الکمالات ثابت ہوئے کہ آپﷺ میں کمال ہی نہیں بلکہ کمال کا آخری اور انتہائی نقطہ ہے جس کے فیض سے اگلے اور پچھلے باکمال بنے۔
عقلی طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ جس پر عنایت ازلی سب سے پہلے اور بلاواسطہ متوجہ ہوئی۔ وہ جس درجہ کا اثر اس سے قبول کرے گا یقیناً ثانوی درجہ میں اور بالواسطہ فیض پانے والے اس درجہ کا اثر نہیں لے سکتے۔ پس اوّل مخلوق یعنی ’’اوّل ماخلق اﷲ نوری‘‘ کا مصداق، نور الٰہی کا جو نقش کامل اپنی استعداد کامل سے قبول کرسکتا ہے اس کی توقع بالواسطہ اور ثانوی نقوش سے اثر لینے والوں سے نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ آپﷺ کی سیرت مبارکہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے