بھی اجتماع ہوتا وہیں پر نبوت ختم ہوجاتی اور آگے بڑھ کر یہاں تک نہ پہنچتی۔ اس لئے ’’خاتم النبیین‘‘ کا جامع علوم نبوت جامع اخلاق نبوت جامع احوال نبوت اور جامع جمیع شئون نبوت ہونا ضروری ٹھہرا جو غیر خاتم کے لئے نہیں ہوسکتا تھا ورنہ وہی خاتم بن جاتا۔
اور ظاہر ہے کہ جب ان ہی کمالات علم وعمل پر شریعتوں کی بنیاد ہے جو اپنی انتہائی حدود کے ساتھ خاتم النبیین میں جمع ہوکر اپنے آخری کنارہ پر پہنچ گئے جن کا کوئی درجہ باقی نہ رہا کہ اسے پہنچانے کے لئے خدا کا کوئی اور نبی آئے تو اس کا صاف مطلب یہ نکلا کہ شریعت اور دین بھی آکر خاتم پر ختم یعنی مکمل ہوگیا اور شریعت ودین کا بھی کوئی تکمیل طلب حصہ باقی نہیں رہا کہ اسے پہنچانے اور مکمل کرنے کے لئے کسی اور نبی کو دنیا میں بھیجا جائے۔ اس لئے خاتم النبیین کے لئے خاتم الشرائع، خاتم الادیان اور خاتم الکتب یا بالفاظ دیگر کامل الشریعت، کامل الدین اور کامل الکتاب ہونا بھی ضروری اور قدرتی نکلا۔ ورنہ ختم نبوت کے کوئی معنی ہی نہیں ہوسکتے تھے اور ظاہر ہے کہ کامل ہی ناقص کے لئے ناسخ بن سکتا ہے نہ کہ برعکس ۔ اس لئے شریعت محمدی بوجہ اپنے انتہائی کمال اور ناقابل تغیر ہونے کے سابقہ شرائع کو منسوخ کرنے کی حقدار ٹھہرتی ہے اور ظاہر ہے کہ ناسخ آخر میں آتا ہے اور منسوخ اس سے مقدم ہوتا ہے۔ اس لئے اس شریعت کا آخر میں آنا اور اس کے لانے والے کا سب کے آخر میں مبعوث ہونا بھی ضروری تھا۔ اس لئے خاتم النبیین ہونے کے ساتھ آخر النبیین بھی ثابت ہوئے کہ آپ کا زمانہ سارے انبیاء کے زمانوں کے بعد میں ہو۔ کیونکہ آخری عدالت جو ابتدائی عدالت کے فیصلوں کو منسوخ کرتی ہے آخر ہی میں رکھی جاتی ہے۔
پھر ساتھ ہی جب کہ خاتم النبیین کے معنی منتہائے کمالات نبوت کے ہوئے کہ آپ ہی پر آکر ہر کمال ختم ہوجاتا ہے تو یہ ایک طبعی اصول ہے کہ جو وصف کسی پر ختم ہوتا ہے اس سے شروع بھی ہوتا ہے جو کسی چیز کا منتہاء ہوتا ہے وہی اس کا مبداء بھی ہوتا ہے اور جو کسی شے کے حق میں خاتم یعنی مکمل ہوتا ہے۔ وہی اس کے حق میں فاتح اور سرچشمہ بھی ہوتا ہے۔ ہم سورج کو کہیں کہ وہ خاتم الانوار ہے جس پر نور کے تمام مراتب ختم ہوجاتے ہیں تو قدرتاً اسی کو سرچشمہ انوار بھی ماننا پڑے گا کہ نور کا آغاز اور پھیلائو بھی اسی سے ہوا ہے اور جہاں بھی نور اور روشنی کی کوئی جھلک ہے وہ اسی کی ہے اور اس کے فیض سے ہے۔
اس لئے روشنی کے حق میں سورج کو خاتم کہہ کر فاتح بھی کہنا پڑے گا یا جیسے کسی بستی کے واٹر ورکس کو ہم خاتم المیاہ (پانیوں کی آخری حد) کہیں جس پر شہر کے سارے نلوں اور ٹینکوں کے