چوں خدا خواہد کہ پردہ کس درد
میلش اندر طعنہ پاکان برد
جب اس کذاب نے اولوالعزم انبیاء علیہم السلام کی شان میں ناشایاں اور گستاخانہ رویہ اختیار کیا۔ تو خدا نے اس کا کذب، افتراء اور بہتان اس کی اپنی ہی زبان سے طشت ازبام کر دیا۔
چالاک مرزاقادیانی کچھ ایسے نڈر ہیں کہ اندھا دھند جو چاہتے اور جو جی میں آتا ہے بے تکلف کہہ ڈالتے ہیں۔ جو کچھ نوک قلم سے نکل جائے۔ بس وہی الہام ووحی سے تعبیر ہوتا ہے۔ ابن اﷲ اور خدائی کا دعویٰ بھی اس لئے کر دیا کہ عیسائیوں کے خدا کو اپنی طرف سے نہ صرف مار ہی دیا۔ بلکہ کشمیر میں اس کو قبر میں دفن بھی کر دیا۔ مرزاقادیانی جب تک خدائی عہدہ داروں کو جان سے مار نہیں ڈالتے۔ اس کے عہدے کا خود مدعی نہیں ہوتے۔ خیال رہتا ہوگا کہ ان کے واپس آنے پر کہیں معزول نہ ہونا پڑے۔ اس لئے جب تک اس کو قبر میں داخل نہ کریں دم نہیں لیتے۔ یہ بھی کسی کا ہی کام ہے۔ سچ ہے ؎
ہر کسے رابہر کارے ساختند
مرزائیوں کی دو پارٹیاں
مرزاقادیانی کے انتقال کے بعد اس کی جماعت اب دو پارٹیوں میں تقسیم ہوئی۔ ایک محمودی اور دوسری پیغامی کے نام سے مشہور ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ مرزاقادیانی کے خیالات کی اشاعت میں منہمک ہیں۔
محمودی پارٹی
محمودی پارٹی کا مرکز تو قادیان ہے اور وہ مرزامحمود فرزند مرزا قادیانی کو ان کا جانشین اور خلیفۃ المسیح مانتے ہیں۔ ان کے اعتقاد میں مرزاقادیانی نبی، رسول اور مسیح ومہدی وغیرہ وغیرہ سب ہی کچھ ہیں۔ جن باتوں کا اس نے اپنی کتابوں میں دعویٰ کیا ہے اور وہ منکرین مرزاقادیانی کو کافر سمجھتے ہیں۔ یہ پارٹی مرزامحمود قادیانی کو اگر ’’پدرنتواند پسر تمام کند‘‘ کا مصداق سمجھتی ہے۔ وہ بھی پدر بزرگوار کی طرح خود شان نبوت لئے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ خدا ہی ہے جو اس سے مسلمانوں کو بچالے۔