نبی سمجھ نہیں سکتا اور ایک غیرذمہ دار شخص جو معنی اس کے بیان کر دیتا ہے۔ بے چون وچرا اس پر اعتبار کر لیا جاتا ہے۔ کیا آپ یقین کر لیں گے کہ ان غیرزبانوں میں الہامات ہوں۔ جن کو مرزاقادیانی نہ جانتے ہوں اور نہ ان کا مطلب کسی کو سمجھا سکتے ہوں۔ کیا ایسے الہام یقینی اور قطعی کہلا سکتے ہیں۔ کیا ایسے الہام کی بناء پر مرزاقادیانی مسیح موعود قرار پاسکتے ہیں۔ یہ باتیں سراسر سنت اﷲ کے خلاف اور ناقابل عملدرآمد ہیں۔ مضحکہ صبیان سے قطعاً زیادہ وقیع نہیں ہوسکتیں۔
سنئے! حضرت موسیٰ کلیم علیہ السلام ملک کنعان میں تھے اور ان کی زبان عبرانی تھی۔ اس لئے تورات عبرانی زبان میں نازل ہوئی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے ملک کی زبان سریانی تھی۔ اس لئے زبور سریانی زبان میں نازل ہوئی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ملک کی زبان یونانی تھی۔ اس لئے انجیل یونانی زبان میں نازل ہوئی۔ ہمارے مولا خاتم الانبیاء سید الرسل ہادی السبل محمد مصطفیٰ پیغمبر اسلام علیہ وآلہ السلام ملک عرب میں تھے۔ ان کی کتاب قرآن مجید بلسان عربی مبین نازل ہوئی۔ قرآن مجید میں بھی آیا ہے: ’’وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبین لہم (ابراہیم:۴)‘‘ یعنی جب کبھی ہم نے کوئی پیغمبر بھیجا تو (اس کو) اس کی قومی زبان میں (بات چیت) کرتا ہوا بھیجا۔
قومی زبان میں ہر پیغمبر کے آنے کی علت خود آیت نے ’’لیبین لہم‘‘ بیان کر دی ہے کہ وہ اس قوم کو اس کی زبان میں احکام خدا بیان کرے۔ پس پنجابی نبی ہوکر غیرزبان انگریزی میں الہام بیان کرنے، اس آیت قرآن کے خلاف ہے۔ کیونکہ یہی سنت اﷲ ہمیشہ سے چلی آئی ہے۔ جس سے کوئی عقلمند انکار نہیں کر سکتا۔ ’’ودونہ خرط القتاد وموجب الفساد بین العباد‘‘
پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ ملک پنجاب میں یہ سنت اﷲ کیوں تبدیل ہوگئی۔ حالانکہ اس کے متعلق نص موجود ہے۔ ’’ولن تجد لسنۃ اﷲ تبدیلا‘‘ اس حکم کے مطابق لازم اور ناقابل تغیر سنت اﷲ یہ ہونی چاہئے تھی کہ پنجابی نبی کے لئے بھی تمام وحی والہام پنجابی زبان میں کئے جاتے۔ جب وہ نبی صادق ہوتا۔ مگر کذاب مدعی کا کذب پھر کیونکر ثابت ہوتا۔ یہ درحقیقت صداقت کا بیّن نشان ہے کہ اس کذاب کے دماغ میں اس کا خیال تک بھی پیدا نہ ہوا کہ جب میں پنجاب کی سرزمین میں دعویٰ نبوت کرنے لگا ہوں۔ تو الہام بھی پنجابی زبان میں گھڑتا رہوں۔ تاکہ سنت اﷲ کی تبدیلی کا الزام عائد نہ ہوسکے۔ ’’ولنعم من قال‘‘