پیغامی پارٹی
اس پارٹی کا مرکز لاہور ہے۔ ان کا امیر مولوی محمد علی ہے۔ یہ پارٹی تدریجاً مرزاقادیانی کے دعاوی کی تاویل کر کے مصلحتاً ان کی رسالت نبوت سے انکاری ہوگئی ہے اور فی الحال یہ پارٹی اگرچہ مرزاقادیانی کی حیثیت لفظاً ایک مجدد سے زیادہ نہیں مانتی۔ مگر اصول اور فروع میں وہ بھی اسی کے احکام کی پابند نظر آتی ہے۔
یہ مسلم ہے کہ یہ پارٹی باوجود تاویلوں کے مرزاقادیانی کو دعویٰ رسالت ونبوت سے کسی طرح بری الذمہ نہیں کر سکتی۔ کیونکہ مرزاقادیانی نے یہ صریح لفظوں میں لکھا ہے کہ ان الہامات میں میری نسبت باربار بیان کیا گیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ، خدا کا مامور، خدا کا امین، خدا کی طرف سے آیا ہے۔ جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ، اس کا دشمن جہنمی ہے۔ (رسالہ دعوت قوم) (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۸۰) اس کی تصانیف میں رسالت کے ایسے دعوے بکثرت ہیں۔
اب کون کہہ سکتا ہے کہ مرزاقادیانی نے ان الفاظ میں کھلم کھلا پیغمبری کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ کیا پیغمبروں کے القاب سے وہ ملقب نہیں ہوئے۔ کیا خدا کا فرستادہ رسول نہیں۔ کیا خدا کا مامور پیغمبر نہیں۔ کیا خدا کا امین نبی نہیں۔ کیا جس پر ایمان لایا جائے وہ پیغمبر نہیں۔ ان دعاوی میں کوئی شبہ ہے کہ جس سے آپ مرزاقادیانی کو پیغمبر یا نبی یا رسول نہیں کہہ سکتے۔ اس پر جب مرزاقادیانی کو کوئی کہتا ہے کہ تم پیغمبری کا دعویٰ کرتے ہو تو فوراً کہتے کہ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں۔ یہی حال پیغاموں کا ہے۔
ایسی صورت میں انصاف سے کہئے کہ پیغمبری، رسالت اور نبوت میں کچھ کسر باقی رہی۔ پھر ایسی وضعی لعنتیں کس پر ہوئیں۔ آؤ خدا کو مانو اور ایسی بے تکی ہانکنے سے باز آجاؤ کہ موت کی گھڑی سر پر کھڑی ہے۔ ورنہ اسلام میں اس رخنہ اندازی سے تم یقینا مشغول الذمہ رہو گے۔ ’’فتدبرو لا تکن من الغافلین‘‘
غافل مشوگر عاقلی دریاب گر صاحبدے
شاید کہ نتواں یافتن دیگر چنیں ایام را
نمقہ… خادم الشریعۃ المطہرہ علی الحائری!
محلہ شیعان، موچی دروازہ لاہور…محررہ، ماہ مارچ ۱۹۲۶ء