پھر دوسری جگہ بھی اسی کی تائید میں لکھا ہے: ’’یہ تیسری آیت باب اوّل اعمال کی مسیح کی طبعی موت کی نسبت گواہی دے رہی ہے۔ یہ گلیل میں اس کو پیش آئی۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۴۷۳،۴۷۴، خزائن ج۳ ص۳۵۴)
پھر ایک جگہ اس طرح لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر بلادشام میں ہے۔ جس کی پرستش عیسائی لوگ کرتے ہیں۔‘‘ (ست بچن ص۱۶۴، خزائن ج۱۰ ص۳۰۹، حاشیہ در حاشیہ)
اب لیجئے۔ ان سب اقوال کے خلاف یوں رقمطراز ہیں کہ: ’’یسوع صاحب کی قبر کشمیر میں ہے۔‘‘ (ست بچن ص۱۶۴، خزائن ج۱۰ ص۳۰۷)
ناظرین! خود اندازہ لگالیں کہ اس شخص کے ان مختلف اور متضاد اقوال میں سے کون سے قول کو سچا مانا جائے؟ درحالیکہ ہر قول اس کا بقول اس کے بذریعہ الہام ہوا کرتا ہے۔ نہ معلوم وہ خود جاہل ہے یا اس کا ملہم، اس طرح اس کے کذب کو طشت ازبام کراتا ہے۔ عقلمند اور فہمیدہ شخص تو ایسی متضاد باتوں کو ہذیان اور ہفوات سے زیادہ وقیع نہیں سمجھ سکتا۔ رہے جہاں مرید! سو وہ ’’انہم کالانعام بل ہم اضل سبیلاً‘‘ کا مصداق ہیں۔ ان کا قول وفعل قابل وثوق اور حجت نہیں ہوسکتا۔
نمبرپنجم! میں ہے۔ ملہم نے مرزاقادیانی کو اپنے الہام سے واضح کیا ہے کہ: ’’عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔ دوبارہ آنے سے روک دئیے گئے اور آنے والا مسیح میں ہی ہوں۔ یہ مجھے خدا نے خبر دی ہے۔‘‘
اس کے متعلق ہم صرف اسی قدر کہیں گے کہ مرزاقادیانی نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ یہ الہام انہیں کس زبان میں ہوا ہے۔ کشمیری، تبتی، لداخی، بلخی، بخارأی، عربی، عبرانی، یا انگریزی زبان میں۔ کیونکہ انہوں نے (براہین احمدیہ ص۵۵۶، خزائن ج۱ ص۶۶۴) میں انگریزی، عربی، عبرانی زبانوں کے الہامات درج کر کے لکھا ہے کہ ان کے معنی مجھے معلوم نہیں ہوئے۔ اس الہام کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا وغیرہ وغیرہ!
اب غورفرمائیں کہ پنجابی نبی کو الہام انگریزی، عبرانی، عربی زبان میں ہونا معنی ندارد! کیونکہ وہ غیر زبانوں کو تو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ فرمائیے۔ پھر ایسے فضول الہام ہونے سے حاصل کیا؟ یہ عجیب بات ہے کہ الہام تو ہوتا ہے نبی کو اور وہ اس کا مطلب سمجھنے میں ایک انگریزی خواں طالبعلم کی طرف محتاج ہوتا ہے۔ ایسے الہام کرنے کی خدا کو ضرورت ہی کیوں ہوئی۔ جس کے معنی اس کا