ہی مرزاقادیانی کی مسیحیت کا استدلال اور نشان ہے تو پھر قرآن وحدیث کی ہر بات اہل غرض بگاڑ کر اپنا مطلب بناسکتے ہیں اور اس بناء تاویل بازی پر تو دین ودنیا کی ایک بات بھی اپنی اصلیت پر قائم نہیں رہ سکتی۔
افسوس ہے کہ اس مدعی مسیحیت کو یہ بھی معلوم نہیں کہ لفظوں کی تاویل کن صورتوں میں کی جاسکتی ہے۔ اس کی جانے بلا۔ اس نے مسیح اور مہدی بننے کے لئے جائز اور ناجائز دونوں ذرائع کو اختیار کر رکھا ہے۔ قرآن وحدیث میں تحریف ہو جائے۔ مگر مسیحیت ومہدویت ہاتھ سے نہ جائے۔ غرض ایسے خیالی ڈھکوسلوں سے وہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم نے وفات اور قبر مسیح کا مسئلہ ثابت کر دیا ہے۔ حالانکہ سوا بے وقوف کے ایسی ہفوات کو کوئی عقلمند تسلیم نہیں کر سکتا۔
اور مرزاقادیانی کی طرح نام بدل دینے میں اگر تاویل سے کام لینا ہو تو پھر مرزاقادیانی یوز اٰسف کو اگر اپنی منشاء کے مطابق یسوع اٰسف خواہ مخواہ تبدیل کر رہے ہیں تو کوئی دوسرے صاحب ان کی طرح کہہ سکتے ہیں کہ یوز اٰسف درحقیقت زوج اٰصف تھا۔ کیونکہ آصف بن برخیاء وزیر تھا۔ جناب سلیمان نبی کا، اور یہ مشہور ہے کہ جناب سلیمان علیہ السلام کشمیر میں تشریف لے گئے تھے۔ پس ناممکن نہیں ہے کہ اس وقت وزیر آصف کی زوجہ نے کشمیر میں انتقال کیا ہو اور اس مقبرہ میں دفن ہوئی ہو اور وہ مقبرہ زوج آصف کے نام سے مشہور ہو۔ بعد میں کثرت استعمال سے زوج تو یوز سے بدل گیا اور آصف آسف سے تبدیل ہوگیا ہو۔ ’’انا ﷲ وانا الیہ راجعون‘‘
مگر ایسی تاویلیں امور شرعیہ اور احکام دینیہ میں قابل اعتماد نہیں ہوسکتیں۔ مرزاقادیانی ہیں جنہوں نے اپنے مذہب اور عقیدہ کا مدار ہی صرف ایسی رکیک تاویلوں، خوابوں اور الہاموں پر رکھا ہوا ہے اور ان کے مقابلہ میں عقل، قرآن اور حدیثوں کی بھی وہ پروا نہیں کیا کرتے۔
غرض مرزاقادیانی عجب دماغ کے مالک تھے۔ بقول شخصے کہ دروغگورا حافظہ نباشد! کہیں کچھ اور کہیں اس کے خلاف کچھ اور لکھ دیتے تھے۔ دور نہ جائیے۔ اسی موت اور قبر مسیح علیہ السلام کے متعلق دیکھئے۔ اس نے کئی پہلو بدلے ہیں۔
مثلاً ایک جگہ تو یہ لکھ دیا ہے کہ: ’’یہ تو سچ ہے کہ مسیح اپنے وطن گلیل میں جاکر فوت ہوا۔ لیکن یہ ہرگز سچ نہیں کہ وہی جسم جو دفن ہوچکا پھر زندہ ہوگیا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۴۷۳، خزائن ج۳ ص۳۵۳)