اس کی قبر کی پرستش کر رہے ہیں۔ جو قبر کہ مرزاقادیانی نے کشمیر میں بتائی ہے۔ وہ ایک ہندو حکمران کے قلمرو میں ہے۔ وہاں تو نصاریٰ میں سے ایک صاحب بھی عبادت اور پرستش کرتے نظر نہیں آتے۔ پھر معلوم نہیں کہ مرزاقادیانی کشمیر میں قبر مانتے ہوئے بخاری کی حدیث قبور ومساجد کیوں پیش کر رہے ہیں؟ یعنی اگر حدیث مذکور میں مرزاقادیانی کی مراد نصاریٰ کا عیسیٰ علیہ السلام کی قبر پرستی کرنا ہے اور اس سے وہ وفات مسیح پر استدلال کرنا چاہتے ہیں تو یہ سراسر غلط ہے۔ کیونکہ کشمیر میں مسیح علیہ السلام سے منسوب نہ تو کوئی قبر ہے اور نہ کشمیر میں نصاریٰ کسی قبر کی پرستش کرتے ہیں۔ پھر خواہ مخواہ اس فضول گوئی سے حاصل کیا؟
مزید برایں اس حدیث بخاری میں یہ کہاں لکھا ہے کہ مسیح علیہ السلام فوت ہوگئے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہود ونصاریٰ نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنایا ہے تو اس حدیث کو پیش کرنے پر مرزاقادیانی کا فرض تھا کہ وہ ثابت کرتے کہ نصاریٰ مسیح علیہ السلام کو اپنا پیغمبر ماتے ہیں۔ خدا یا خدا کا بیٹا تسلیم نہیں کرتے۔ کیونکہ حدیث کا لفظ ’’قبور انبیائہم‘‘ ہے۔ پس اس سے بھی ثابت ہوا کہ مسیح علیہ السلام کی قبر اس حدیث میں مراد نہیں ہے۔ کیونکہ مرزاقادیانی کو یہ تسلیم ہے کہ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر نہیں بلکہ خدا تصور کرتے ہیں۔ پس قبور انبیائہم سے سوا مسیح کے دوسرے انبیاء مراد ہیں۔ جن کو یہود ونصاریٰ مانتے چلے آرہے ہیں۔ کیونکہ جس قدر انبیاء گذرے ہیں۔ شاذونادر ہی کوئی ہوگا جس کو یہود ونصاریٰ بالاتفاق نبی نہ مانتے ہوں۔ بلکہ انجیل موجودہ میں مکرر لکھاہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں تورات کو پورا کرنے کے واسطے نہیں آیا۔ انہیں دس احکامات کا جوتورات میں ہیں۔ سب کو نصاریٰ مانتے ہیں اور جن تمام انبیاء کا ذکر تورات میں موجود ہے ان کو انبیاء جانتے ہیں۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ’’قبور انبیائہم‘‘ سے سوا عیسیٰ علیہ السلام کے (کیونکہ وہ فوت ہی نہیں ہوئے) دوسرے انبیاء مراد ہیں۔ جن کو یہود ونصاریٰ بالاتفاق انبیاء مانتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی نے اس کے متعلق جو کچھ بھی لکھا ہے۔ سب غلط اور عوام فریبی دھوکا دہی پر مبنی ہے۔ ’’فما ہذا الابہتان عظیم‘‘
نمبرچہارم! میں مرزاقادیانی نے اپنے خلیفہ حکیم نورالدین کے حوالہ سے یسوع کی قبر کشمیر، محلہ خانیار میں ہونا بیان کی ہے اور یوز اٰسف نام کی اپنے منشاء کے مطابق خواہ مخواہ تاویل کرنے میں بہت چالاکی سے کام لیا ہے اور لفظ یوز اسف کو یسوع آسف یا یسوع صاحب موڑ توڑ کر بنایا ہے۔ جو قطعاً خلاف معقول ومنقول ہے۔ اگر اس بری طرح صحیح لفظوں کو بگاڑنا ہی