کے لئے کیونکر مخصوص کر دیا۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ان بارہ بیماریوں میں سے کوئی بیماری جناب مسیح علیہ السلام کو ہوئی ہو اور اس کے لئے یہ مرہم استعمال کی گئی ہو۔ کیونکہ آنجناب اکثر سفر کیا کرتے اس لئے ممکن ہے کہ ان کے پاؤں میں شقاق، ورم یا حکہ (خارش جدید) وغیرہ کی بیماری پیدا ہوگئی ہو اور اس وقت یہ مرہم آنحضرت (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) نے استعمال کی ہو۔ یہ الفاظ مرزاقادیانی نے اپنے پاس سے جوڑ لئے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو یہود نے صلیب پر چڑھادیا تھا اور پھر جلدی اتار لیا تھا۔ اس وقت ان کو زخم ہوگئے۔ ان زخموں کے واسطے یہ مرہم تیار کی گئی تھی۔ یہ ڈھکوسلا مرزاقادیانی کا اپنابنایا ہوا ہے۔ ایسے افتراء پردازیوں سے وہ دھوکا دہی میں کامل مشاق تھے اور احمقوں کو پھانس کر مرید بنالیا کرتے تھے۔ ’’لاحول ولا قوۃ الا باﷲ فانہم قد ضلوا واضلوا‘‘
نمبرسوم! میں مرزاقادیانی نے جناب مسیح علیہ السلام کو صلیب چڑھائے جانے اور ان کے فوت ہو جانے پر بہت زور دیا ہے اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مسیح بلادشام میں دفن بھی کر دئیے تھے اور اس قبر کی پرستش قوم نصاریٰ اب تک سال بسال ایک مقررہ تاریخ پر جمع ہوکر کرتے ہیں۔
صرف بخاریؒ کی حدیث ’’لعن اﷲ الیہود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیائہم مساجداً‘‘ کی بناء پر مرزاقادیانی نے جناب مسیح علیہ السلام کو سولی بھی چڑھایا، مار بھی دیا اور خاص بلادشام میں دفن کر کے ان کی قبر بھی بنادی نہ معلوم یہ سب باتیں مرزاقادیانی نے حدیث قبور انبیائہم والی حدیث بخاری کے کن الفاظ سے اخذ کئے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ فی الواقع بات کو بتنگڑ بنانا مرزاقادیانی پر ختم تھا۔ دیکھئے حدیث کیا پیش کی ہے اور باتیں کس قدر بنائی ہیں۔ سچ ہے ؎
ایں کاراز تو آید ومردان چنیں کنند
ایسے ہی استعاروں سے انہوں نے مسیح علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا اور پھر مارکر بلادشام میں دفن بھی کر دیا اور نصاریٰ کو اس کی قبر پرستی کا الزام بھی لگادیا۔ کسی نے سچ کہا ہے۔ ملا آنست کہ بند نشود، رطب گویدیا یابس!
دوستو! غور کرو کہ مرزاقادیانی کہیں تو لکھتے ہیں کہ: ’’جناب مسیح علیہ السلام کی قبر بلادشام میں ہے۔‘‘ اور کہیں لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت مسیح علیہ السلام اپنے ملک سے نکل گئے۔ کشمیر میں جاکر وفات پائی اور اب تک ان کی قبر کشمیر میں موجود ہے۔‘‘
کیا مرزاقادیانی کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ بتاتے ان کی قبر پر کس قدر نصاریٰ معتکف اور