صلیب پر ضرور چڑھادئیے گئے اور پھر اتار لئے گئے۔ بحالیکہ وہ زندہ تھے اور زخموں کے واسطے حواریوں نے مرہم تیارکی۔ جس سے وہ اچھے ہوگئے اور کشمیر میں آ کر فوت ہوگئے۔ مگر اس کے خلاف مندرجہ ثبوت نمبر سوم ایسا متناقض ہے کہ وہ اس بات کو بالکل باطل اور ہبا منثورا کئے دیتا ہے۔ جس کا بیان آئے گا۔ فانتظر!
کاش مرزاقادیانی زندہ ہوتے تو ان سے دریافت کر لیا جاتا کہ آپ کی اس مرہم میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو یہود نے سولی پر چڑھایا اور پھر جلدی سے اتار لیا تھا اور زخم کو جوان کو لگے تھے ان کے واسطے یہ مرہم تیار کی گئی تھی اور اگر یہ الفاظ اس مرہم پر لکھے ہوئے نہیں ہیں تو پھر آپ یہ حکم کیسے لگا سکتے ہیں کہ ان کو صلیب پر چڑھایا تھا اور اسی لئے یہ مرہم تیار ہوئی تھی۔ رجماً بالغیب کسی بات کو بلاثبوت کہہ دینے سے کسی محیل دھوکا باز کی صداقت یا مسیحیت طبقہ عقلاء کے نزدیک نہیں ثابت ہوسکتی۔
غرض اس مرہم میں لکھا ہے کہ یہ مرہم بارہ اقسام کے امراض کی دافع ہے۔ کیا حضرت مسیح علیہ السلام کو ان بارہ اقسام کے امراض میں سے کوئی خاص مرض تھی یا بارہ کی بارہ ہی بیماریاں تھیں۔ اگر بفرٍض محال تسلیم بھی کر لیا جائے کہ وہ مرہم حضرت مسیح علیہ السلام کے واسطے ہی تیار کی گئی تھی۔ تب بھی اس سے یہ بات کہاں ثابت ہوئی کہ فی الواقع وہ مرہم صلیب ہی کے زخموں کے واسطے بنائی گئی تھی۔ اذ لیس فلیس یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ پڑتال کتب طب ہی فضول ہے۔
اب ان امراض کے نام بھی ملاحظہ فرمالیں اور ام حاسبہ (جمع ورم یا سخت) خنازیر (کنٹھ مالا) طواعین (جمع طاعون) سرطان (ورم سوداوی) تنقیہ جراحات (زخموں کا تنقیہ) اوساخ (چرک) جہت رویانیدن گوشت تازہ، رفع شقاق واثار (شگاف پائ) حکہ (خارش جدید) جرب (خارش کہنہ) سعفہ (مرض سرگنج) بواسیر مشہور مرض ہے۔ (قرابا دین قادری ص۴۸۷)
جہاں سے یہ مرہم شروع ہوتی ہے۔ وہ الفاظ یہ ہیں۔ ’’مرہم حواریین کہ مسمی است بمرہم سلیخا ومرہم رسل نیز دان را مرہم عیسیٰ نامند۔‘‘ اب ظاہر ہے کہ لفظ رسل رسول کی جمع ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بہت سے پیغمبروں کا یہ نسخہ ہے اور اس نسخہ کے چار نام ہیں۔ حواریین، سلیخا، رسل، عیسیٰ۔
باوجود اس کے مرزاقادیانی نے اس مرہم کو صرف مسیح علیہ السلام کے صلیبی زخموں ہی