سوم… ’’ہمارے متعصب مولوی یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مع جسم عنصری آسمان پر چڑھ گئے ہیں اور آسمان پر موجود ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ صلیب پر بھی چڑھائے نہیں گئے۔ بلکہ کوئی اور شخص صلیب پر چڑھایا گیا۔ لیکن ان بیہودہ خیالات کے رد میں ایک قوی ثبوت یہ ہے کہ (صحیح بخاری ص۳۳۹) میں یہ حدیث موجود ہے۔ ’’لعنت اﷲ علی الیہود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیائہم مساجدا‘‘ یعنی یہود ونصاریٰ پر خدا کی لعنت جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد بنالیا ہے… بلاد شام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کی پرستش ہوتی ہے اور مقررہ تاریخوں پر ہزارہا عیسائی سال بسال جمع ہوتے ہیں۔ سو اس حدیث سے ثابت ہوا کہ درحقیقت وہ قبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہی قبر ہے۔‘‘
(ست بچن ص۱۶۴، خزائن ج۱۰ ص۳۰۹، ملخص حاشیہ در حاشیہ)
چہارم… ’’اخویم حضرت مولوی حکیم نورالدین فرماتے ہیں کہ میں قریباً چودہ برس تک جموں اور کشمیر کی ریاست میں نوکر رہا ہوں۔ کشمیر میں ایک مشہور اور معروف مزار ہے۔ جس کو یوز اسف نبی کی قبر کہتے ہیں۔ اس نام پر سرسری نظر کر کے ہر ایک شخص کا ذہن ضرور اس طرف منتقل ہوگا کہ یہ قبر کسی اسرائیلی نبی کی ہے۔ کیونکہ یہ لفظ عبرانی کے مشابہ ہے۔ دراصل یسوع اسف ہے یعنی یسوع غمگین، مگر بعض کا بیان ہے کہ دراصل یہ لفظ یسوع صاحب ہے۔ پھر اجنبی زبان میں مستعمل ہوکر یوز اٰسف بن گیا۔ لیکن میرے نزدیک یسوع آصف اسم بامسمٰی ہے… حضرت مسیح اپنے ملک سے نکل گئے۔ کشمیر میں جاکر وفات پائی اور اب تک ان کی قبر کشمیر میں موجود ہے۔ ہاں ہم نے کسی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی بلادشام میں قبر ہے۔ مگر اب صحیح تحقیق ہمیں اس بات کے لکھنے کے لئے مجبور کرتی ہے کہ واقعی قبر وہی ہے جو کشمیر میں ہے۔ حضرت مولوی نورالدین فرماتے ہیں کہ یسوع صاحب کی قبر جو یوز اسف کی قبر کر کے مشہور ہے وہ جامع مسجد سے آتے ہوئے بائیں طرف واقع ہے۔ عین کوچہ میں ہے۔ اس کوچہ کا نام خانیار ہے۔‘‘
(کتاب ست بچن ص۱۶۴، خزائن ج۱۰ ص۳۰۶،۳۰۷، ملخص حاشیہ)
پنجم… ’’مجھے خدا نے خبر دی ہے کہ عیسیٰ مرچکے اور اس دنیا سے اٹھائے گئے۔ پھر دنیا پر نہیں آئیں گے۔ خدا نے حکم موت کا اس پر جاری کیا اور پھر کر آنے سے روک دیا اور وہ مسیح میں ہی ہوں۔‘‘ (انجام آتھم ص۸۰، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)