معالم التنزیل میں امام بغویؒ نے ضحاکؒ وغیرہ جیسی ایک جماعت سے نقل کیا ہے کہ ان کا مذہب اور عقیدہ بھی یہی ہے کہ ’’انی متوفیک‘‘ مؤخر ہے۔ اگرچہ مقدم مرتب ہوگیا ہے۔ فخررازی اور نیشاپوری نے بھی اس آیت میں تقدیم وتاخیر کا ذکر کیا ہے۔ پس لازماً اس آیت میں بھی تقدیم وتاخیر کا واقع ہونا مسلمہ مفسرین ثابت ہوا۔ اس لئے اس آیت میں ممات مسیح علیہ السلام ثابت کرنے میں مرزاقادیانی نے صریح غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور منشاء قرآن کے خلاف کہہ کر ایک مسلمہ عقیدہ جمہور اہل اسلام کی مخالفت کی ہے اور صرف اپنے کو مسیح بنانے کے لئے یہ غلط معنی اختیار کئے ہیں۔ کیونکہ صحیح معنی کرنے میں ان کی مسیحیت ہباء منثورا ہو جاتی ہے۔ ’’نعوذ باﷲ من النفس الامارۃ بالسؤ والضلالۃ بعد الہدیٰ‘‘
وفات مسیح کی کہانی مرزاقادیانی کی زبانی
مسئلہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کے بالبراہین والدلائل ثابت ہو جانے کے بعد مرزاقادیانی کی کہانی وفات مسیح علیہ السلام کے متعلق مع التردید ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی اور مرزائی جماعت انہیں بے سروپا ڈھکوسلوں سے مسئلہ وفات مسیح علیہ السلام میں سیدھے سادھے مسلمانوں کو دھوکا دیتے رہے ہیں۔ کلمہ فضل رحمانی سے بعض اقتباسات ذیل میں نقل کرتا ہوں۔ ’’فتدبروا ولا تکونوا من الغافلین‘‘
مرزاقادیانی نے اپنی تالیفات میں جناب مسیح علیہ السلام کی وفات کے متعلق جو کچھ ہفوات لکھے ہیں مع جوابات ملاحظہ فرمائیں۔
اوّل… ’’مجھ کو خدا نے خبر دی ہے۔ ’’یعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مرچکے۔ اب وہ واپس نہیں آئیں گے۔‘‘ (انجام آتھم ص۸۰، خزائن ج۱۱ ص۸۰)
دوم… ’’مرہم عیسیٰ یا مرہم حواریین میں ہے۔ یہ مرہم نہایت مبارک مرہم ہے جو زخموں اور جراحتوں اور نیز زخموں کے نشانوں کے نشان معدوم کرنے کے لئے نہایت نافع ہے۔ طبیبوں کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ مرہم حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے تیار کی تھی۔ یعنی جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہود علیہم العنۃ کے پنجہ میں گرفتار ہوئے اور صلیب چڑھانے کے وقت ان کو خفیف زخم بدن پر لگ گئے تھے۔ اس مرہم کے استعمال کرنے سے بالکل دور ہوگئے اور نشان بھی مٹ گئے تھے۔‘‘ (ست بچن ص۱۶۴، خزائن ج۱۰ ص۳۰۱)